باب ششم … سلسلہ دراز عشق
۱…نامردی کا یقین مرزاغلام احمد قادیانی کی ایک شادی پہلے ہی قادیان میں ہوچکی تھی اور اس بیوی سے ان کے دو جوان لڑکے سلطان احمد اور فضل احمد موجود تھے۔ اس کے بعد مرزاقادیانی نے ایک اور شادی دہلی کے میرناصر نواب کی صاحبزادی نصرت جہاں بیگم سے کی۔ حالانکہ اس زمانہ میں مرزاقادیانی کی قوت مردمی کے ضعف کا جو حال تھا وہ قابل ملاحظہ ہے۔
بخدمت اخویم مخدوم ومکرم مولوی حکیم نورالدین سلمہ اﷲ تعالیٰ
جس قدر ضعف دماغ کے عارضہ میں یہ عاجز مبتلا ہے۔ مجھے یقین نہیں کہ آپ کو ایسا ہی عارضہ ہو۔ جب میں نے نئی شادی کی تھی تو مدت تک مجھے یقین رہا کہ میں نامرد ہوں۔ آخر میں نے صبر کیا اور اﷲتعالیٰ سے پرامید اور دعا کرتا رہا۔ سو اﷲ جل شانہ نے اس دعا کو قبول فرمایا اور ضعف قلب تو اب بھی مجھے اس قدر ہے کہ میں بیان نہیں کر سکتا۔ (پھر شادی کس ہمت وامید پر کی تھی۔ للمؤلف) خاکسار غلام احمد قادیانی مورخہ ۲۲؍فروری ۱۸۸۸ء
(مکتوبات احمدیہ ج۵ نمبر۲، خط نمبر۱۴)
مخدومی مکرمی اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب سلمہ اﷲ تعالیٰ
مجھے یہ دوا بہت ہی فائدہ مندہ معلوم ہوتی ہے کہ چند امراض کاہلی وسستی ورطوبات معدہ اس سے دور ہوگئے ہیں۔ ایک مرض مجھے نہایت ہی خوفناک تھی کہ صحبت کے وقت لیٹنے کی حالت میں نعوذ (خیزش) بکلی جاتا رہتا تھا۔ شائد قلت حرارت عزیزی اس کا موجب تھی۔ وہ عارضہ بکلی جاتا رہا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ حرارت عزیزی کو بھی مفید ہے اور منی کو بھی غلیظ کرتی ہے… چونکہ دوا ختم ہو چکی ہے اور میں نے زیادہ سے زیادہ کھالی ہے۔ اس لئے ارادہ ہے کہ اگر خداتعالیٰ چاہے تو دوبارہ تیار کی جائے۔ لیکن چونکہ گھر میں ایام امید ہونے کا کچھ گمان ہے۔ جس کا میں نے ذکر بھی کیا تھا۔ ابھی تک وہ گمان پختہ ہوتا جاتا ہے۔ خداتعالیٰ اس کو راست کرے۔ اس جہت سے جلد تیار کرانے کی چنداں ضرورت میں نہیں دیکھتا۔ (مکتوبات احمدیہ ج۵ نمبر۲ ص۱۳،۱۴)
مرزاقادیانی کے ضعف مردمی کی تویہ کیفیت تھی۔ لیکن اپنی رسالت کے دعویٰ کی تائید