فلاح کی راہ
چن بسویشور اپنے اندر لوگوں کے فناہونے کو شرط لازم قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’بعد حمد ونعت کے میں تمام بنی نوع انسان خصوصاً مسلمانوں کو جن کی گردن پر تبلیغ کا جوا ہے۔ وہ کسی صورت سے نکل نہیں سکتا۔ اس کتاب (دعوۃ الیٰ اﷲ) کے ذریعہ مطلع کرتا ہوں کہ کوئی گروہ اور کوئی فرد واحد موجودہ زمانے میں اﷲ تک پہنچ نہیں سکتا۔ جب تک وہ مجھ میں فنا نہ ہو۔ یہ میرے منہ کی بات نہیں ہے۔ یہ تو حضور سرور عالمﷺ کا ارشاد مبارک ہے۔ لاکھ لاکھ درود اس ذات احدیث مآب پر، سولہ سال پیشتر آپ نے اس فقیر کی رویا میں تشریف لاکر اس فقیر کو یہ مرتبہ عطاء فرمایا۔ سننے والوں کو یہ بات شاق گذرتی ہوگی۔ خفگی اور برہمی کی کوئی بات نہیں۔ یہ حقیقت ہے کوئی تعلی اور فخر نہیں۔ کوئی خود غرضی وخودنمائی نہیں۔ ایسے مقام والے وجود انسان ہی ہوتے ہیں۔‘‘
(دعوۃ الیٰ اﷲ ص۲)
خدا تک رسائی کے لئے چن بسویشور میں فنا ہونے کا نمبر بعد میں آئے گا۔ مگر ذرا یہ بتاؤ کہ حضورﷺ کا ارشاد مبارک جو نقل فرمایا ہے۔ وہ کہاں ہے؟ حضورﷺ آپ کے اندر فنا ہونے کا کیا فرماتے۔ آپنے تو اپنے اندر فنا ہونے کا بھی حکم نہیں دیا۔ یہی فنائیت ہے جس نے دیندار انجمن والوں کا ایمان فنا کر دیا۔ مگر اب دودماں جل جانے پر بھی ان بے حسوں کو ہوش نہیں آرہا۔
اﷲ کا مظہر اور خدائی اختیارات
اب تک تو چن بسویشور نبوت اور اس کے آس پاس گھوم رہے تھے۔ مگر اب پوری خدائی پر قبضہ جمانے کے خوابوں میں مست ہیں۔ ارشاد ہے: ’’یہ کل بے نوری اور خدا سے دوری۔ اس وجہ سے ہے کہ انفرادیت اور انتشار کی حالت والا تقسیم نعمت کازمانہ ختم ہوگیا۔ وہ جامع الناس، دین کا مالک، قیامت قائم کرنے والا، حشر برپا کرنے والا۔ تیسری دفعہ ’’لا تثریب علیکم الیوم‘‘ کہنے کے لئے یوسف کے لباس میں جیل بھگتا ہوا۔ بیڑیاں پکڑا ہوا، ثور کے بطن سے صدیق اور عنموائیل نام پر زمین وآسمان کے ۹۶نشانوں کی شہادت کے ساتھ جسمانی اور اخلاقی ۵۶نشانوں کے ساتھ غیر کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔ یہ کامل ’’متبع رسول الثلقینﷺ‘‘ اﷲتعالیٰ سے ہم کلامی کا شرف حاصل کر کے ’’ان الذین یبایعونک انما یبایعون اﷲ یداﷲ فوق ایدیہم‘‘ کی بشارت کے ساتھ دوبارہ شان اسلام کو دنیا کے کناروں تک چمکانے کے لئے کامل بشارتوں کے ساتھ اﷲ کا مظہر صدیق دیندار چن بسویشور آیا ہے۔ اب اس کی صحبت