میں قابل قبول نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایرانی حکومت اس ثالثی کو مسترد کر چکی ہے۔ وزیرخارجہ کے تازہ بیان کی روشنی میں پاکستانی سفیر متعینہ ایران کے فرائض میں تبدیلی ہونا چاہئے۔ انہوں نے پچھلے دنوں فرمایا تھا کہ تیل کے مذاکرات میں، میں صرف قاصد کی حیثیت رکھتا ہوں۔ جو طرفین کی تجاویز دیکھے بھالے بغیر ایک دوسرے تک پہنچا دیتا ہے۔ ہمارے خیال میں پاکستانی سفیر کو اب یہ کام ایران کے کسی ڈاک گھر یا برطانیہ اور ایران کے اپنے اپنے قاصدوں کے سپرد کردینا چاہئے اور اس کی بجائے ایران کے مطالبات منوانے کے لئے انہیں کوئی مؤثر اور مفید ذمہ داری اپنے سرلینا چاہئے۔ وزیرخارجہ نے فرمایا ہے کہ پاکستان مسلمان ممالک کی آزادی کے لئے کوشاں ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے لیبیا کی بھی مثال پیش کی ہے۔ لیکن جہاں تک ہمیں معلوم ہے۔ وزیرخارجہ نے لیبیا میں گورا فوج کے قیام کی ہرگز مخالفت نہیں کی۔ حالانکہ غیرملکی فوج کی موجودگی میں لیبیا کی آزادی ادھوری رہ جاتی ہے۔ مسلم ممالک کے مسائل سے قطع نظر چوہدری صاحب نے دوسرے بین الاقوامی معاملات میں بھی لائق تحسین روش اختیار نہیں کی۔ انہوں نے صلح نامہ جاپان پر دستخط کر کے جاپان میں امریکی فوج کا قیام تسلیم کر لیا۔
حالانکہ ہم کشمیر سے غیرملکی فوج کے انخلاء کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے کوریا کے معاملے میں بلا پس وپیش امریکی عزائم کی حمایت کر دی۔ قائداعظم کے واضح ارشاد کے باوجود ویٹ نام کی عوامی حکومت کو نظر انداز کیا۔ اسپین کے جمہوریت کش آمر فرانکو سے راہ ورسم بڑھائی اور امن کے دشمن ہتھیار ایٹم بم کو خلاف قانون قرار دینے کی تجویز کی حمایت نہ کی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ پاکستان کو آج تک تاج برطانیہ سے وابستہ رکھنے کی حمایت کر رہے ہیں اور ان کے سفیر برطانیہ اور پاکستان کے بیشتر تصورات کو ہم آہنگ بتاتے ہیں۔ حالانکہ قرارداد لاہور کی رو سے قیام پاکستان کے ساتھ تاج برطانیہ سے قطع تعلق لازمی تھا۔ یہ اور اسی قسم کے دوسرے مسائل کے بارے میں آزاد مملکت کے وزیرخارجہ کو اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کرنی چاہئے۔‘‘
(روزنامہ امروز لاہور مورخہ ۳۰؍مارج ۱۹۵۲ئ)
ہماری وزارت خارجہ برطانوی سامراج کی آلہ کار ہے
’’کراچی، گزشتہ ہفتہ پاک پارلیمنٹ میں محکمہ امور خارجہ اور رابطہ دولت مشترکہ کے مطالبات پر بحث کے دوران میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کی سخت مذمت کی گئی اور یہ مطالبہ کیاگیا