بسم اﷲ الرحمن الرحیم!
ہوئے تم دوست جس کے
دشمن اس کا آسماں کیوں ہو
گورنمنٹ پاکستان کے نام
پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے؟
گذشتہ کئی برسوں سے زعمائے احرار یہ واویلا کر رہے ہیں کہ قادیانی ٹولہ پاکستان کی سالمیت کے لئے وجۂ انتشار ثابت ہورہا ہے۔ پاکستان کی سرکاری فوج کی موجودگی میں مرزائیوں کی فرقان بٹالین اور ہرمرزائی کا تین ماہ کے لئے بطور رنگروٹ اس میں شامل ہوکر ٹریننگ حاصل کرنا اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ اندر ہی اندر کیا کھچڑی پک رہی ہے۔ پھر بشیرالدین محمود قادیانی کے وہ الہامی بیانات جن کا راقم نے اپنی کتاب جانباز پاکٹ بک میں وضاحت سے ذکر کیا ہے۔ ان واقعات کو مزید تقویت دیتے ہیں۔
بحمدﷲ! مجلس احرار کی مسلسل مساعی جمیلہ سے قوم کا برسراقتدار طبقہ آج سیاست کے اس موڑ پر آکھڑا ہوا ہے۔ جہاں سے قادیانی تصویر کے تمام خط وخال واضح دکھائی دے رہے ہیں۔ چار سال کی پیہم جدوجہد نے مرزائیت کے سیاسی عزائم کو اس حد تک عریاں کردیا ہے کہ اب لاکھ پردوں میں بھی اس سنڈاس کی بورک نہیں سکتی۔ آج ہر صاحب فکر پاکستانی مرزائیت کے نشیب وفراز سے آشنا ہوچکا ہے۔ چنانچہ پاک پارلیمان کے حالیہ اجلاس میں ہمارے ملک کے وزیر خارجہ (چوہدری سرظفر اﷲ قادیانی) پر بہت سی لے دے ہوئی ہے۔ چوہدری صاحب پانچ برس سے اس ملک کے وزیرخارجہ چلے آرہے ہیں۔ اس عرصہ میں ان کی زندگی کا اکثر وبیشتر حصہ امریکہ یا لندن میں گذرا۔ لیکن پاکستان کی بہتری کے لئے انہوں نے کیا کیا؟
جہاں تک سوال کی ماہیت کا تعلق ہے۔ اپنی جگہ بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ پارلیمان کے ممبروں کا ہی حق نہیں بلکہ ہر پاکستانی کا فرض ہے کہ وہ اپنے وزیرخارجہ سے یہی سوال کرے۔ سیاسی اعتبار سے آج پاکستان جس دوراہے پر کھڑا ہے۔ بین الاقوامی صورتحال سے آشنا لوگ اسے آسانی سے نظر انداز نہیں کر سکتے۔ باوجودیکہ برطانوی اقتدار کا سایہ ہنوز ہم پر پرچھائیاں ڈال رہا ہے۔ ہر ملک ہماری موت کے دن گن رہا ہے۔ اگر ایک طرف امریکہ اپنے ڈالروں سے ہمارے گردا گرد معاشرتی جال بن رہا ہے تو دوسری طرف افغانستان کے سیاہ پہاڑ ہمیں بری