۱۹۵۱ء میں قادیان کے سالانہ جلسے سے واپسی پر شیخ بشیر احمد ایڈووکیٹ (قادیانی) لاہور نے آفاق کے نمائندہ کو ایک بیان دیتے ہوئے کہا کہ: ’’ایک بڑے سکھ لیڈر نے مجھ سے ملاقات کر کے ان واقعات پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ جو تقسیم ملک کے فوراً بعد عمل میں آئے اس سکھ لیڈر نے مجھ سے التماس کی ہے کہ میں ان کے جذبات کو پاکستانی عوام تک پہنچا دوں۔‘‘
(روزنامہ آفاق مورخہ ۳؍جنوری ۱۹۵۲ئ)
ایک طرف سکھ لیڈر ماسٹر تارا سنگھ کے وہ بیانات ہیں۔ جن میں وہ ہر روز بھارت کو پاکستان پر حملہ کرنے کی تلقین کر رہا ہے اور دوسری طرف ننکانہ صاحب (پاکستان) میں سو سے زائد آکالی سکھ اپنے گوردوارے کی حفاظت میں سیوا دار بن کر بیٹھے ہیں۔ تیسری طرف تین سو سے زائد مرزائی درویش بن کر قادیان (بھارت) بیٹھے ہیں اور اکثر ان میں سے جب جی چاہتا ہے پاکستان آجاتے ہیں اور جب جی چاہتا ہے بھارت چلے جاتے ہیں اور چوتھی طرف شیخ بشیراحمد وکیل قادیانی سکھوں کے پیغام مسلمانوں کے نام پاکستان میں پہنچا رہے ہیں۔ آخر یہ سب کچھ کیا ہورہا ہے؟
قادیانی مذہب کے اخلاق
مندرجہ بالا عنوان کے تحت نہ لکھنے کو جی چاہتا تھا اور نہ ہی اب ارادہ ہے۔ لیکن اپنے راستے کی ایک منزل سمجھ کر یہاں سے گذر رہا ہوں۔ وہ بھی بادل ناخواستہ۔
بڑے بزرگوں کا کہنا ہے کہ درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے۔ مرزاغلام احمد قادیانی اپنے کو نبی کہتا ہے اور صرف نبی ہی نہیں بلکہ اس کا کہنا ہے کہ قرآن کریم کی اس آیت میں: ’’محمد رسول اﷲ والذی معہ اشدء علی الکفار رحماء بینہم‘‘ اس وحی الٰہی میں خداتعالیٰ نے میرا نام محمد رکھا ہے اور رسول بھی۔‘‘ (ایک غلطی کا ازالہ ص۳، خزائن ج۱۸ ص۲۰۷) ایک مجلس میں جس میں خود مرزاغلام احمد قادیانی موجود تھا۔ اکمل نامی شاعر نے یہ شعر پڑھے ؎
محمد پھر اتر آئے ہیں ہم میں
اور پہلے سے ہیں بڑھ کر اپنی شان میں
محمد دیکھنے ہوں جس نے اکمل
غلام احمد کو دیکھے قادیان میں
(اخبار البدر مورخہ ۲۵؍اکتوبر ۱۹۰۶ئ)