مرزائی حضرات کلیجے پر پتھر باندھ کر ذیل کا ملفوظ شریف بھی ملاحظہ فرمائیں۔ ’’مسیح کی وفات، عدم نزول اور اپنی مسیحیت کے الہامات کو میں نے دس سال تک ملتوی رکھا۔ (گھر کا معاملہ ہوا) بلکہ رد کر دیا۔ (شک کرنا تو بجائے خود رہا)‘‘ (حمامتہ البشریٰ ص۷۹، خزائن ج۷ ص۲۹۶)
اب انصاف سے کہئے کہ ایک یوم کے شک وشبہ سے جہاں کفر اور آخرت کی تباہی لازم آتی ہے۔ وہاں دس سال کے التواء بلکہ روہی کی کیا سزا ہونی چاہئے اور اس جرم کی بناء پر مسلمان اگر مرزاقادیانی کے لئے سزا تجویز کریں۔ یعنی صرف یہی کہ کافر کہہ دیں تو آپ کا چراغ پاہو جانا بے جا ہوگا یا نہیں۔ کیونکہ ہم اپنی طرف سے تو ان کے لئے کوئی لقب تجویز نہیں کر رہے۔ یہ سب ان کا اپنا ہی تجویز کردہ ہے۔ مرزائی دوستو! کہ تھوڑی دیر کے لئے اس حقیقت پر غور کرو گے اور کیا آسمانی گزٹ اپنے نبی کو کفر سے بچانے اور ان حوالہ جات کی تطبیق کی سعی کرو گے۔
خدمت اسلام
مرزاقادیانی اگر اپنے دعاوی میں سچے اور مأمور من اﷲ ہوتے تو تمام مخلوق سے بے نیاز ہوکر اپنا کام کئے جاتے۔ لیکن چونکہ ان کے دعاوی کی بنیاد نفسانیت پر قائم تھی۔ اس لئے آپ کو ایک ایسے ماوی سہارے کی تلاش ہوئی۔ جس کے بل بوتے پر آپ اپنے مشن کو جاری رکھ سکتے۔ چنانچہ آپ نے اس مقصد کے لئے حکومت وقت کی خوشامد اختیار کی اور اس میں اس قدر زیادتی کی کہ جہاد جیسے اسلام کے قطعی مسئلہ سے انکار کر دیا اور اپنی تمام کوشش اس بات پر صرف کر دی کہ گورنمنٹ کی اطاعت وفرمانبرداری جزو ایمان ہے اور جہاد بالکل حرام ہے۔ چنانچہ مرزاقادیانی فرماتے ہیں: ’’میری عمر کا اکثر حصہ اس سلطنت انگریزی کی تائید اور حمایت میں گذرا ہے اور میں نے ممانعت جہاد اور انگریزی اطاعت کے بارہ میں اس قدر کتب لکھی ہیں اور اشتہارات شائع کئے ہیں کہ اگر وہ رسائل اور کتابیں اکٹھی کی جائیں تو پچاس الماریاں ان سے بھر سکتی ہیں۔ میں نے ایسی کتابوں کو تمام ملک عرب اور مصر اور شام اور کابل اور روم تک پہنچا دیا ہے۔ میری تبلیغ کے لئے جائیں تو وہاں بھی برٹش حکومت ہماری مدد کرتی ہے۔‘‘
(تریاق القلوب ص۱۵، خزائن ج۱۷ ص۱۵۵)
یہ وہ کلمات ہیں۔ جنہوں نے تمام مسلمانوں کے دلوں میں ناسور ڈالے ہیں اور روزمرہ کے مشاہدات کی بناء پر وہ یقین کر چکے ہیں کہ حکومت برطانیہ ان کی ہر ممکن اعانت کے لئے مستعد رہتی ہے۔