اس کے بعد مرزاقادیانی نے دکھاوے کے لئے ایک دعا شائع کی۔ ’’اے میرے آقا! اب میں تیرے تقدس اور رحمت کا دامن پکڑ کر تیری جناب میں ملتجی ہوں کہ مجھ میں اور مولوی ثناء اﷲ میں سچا فیصلہ فرما اور جو تیری نگاہ میں حقیقت میں مفسد اور کذاب ہے اس کو صادق کی زندگی میں کسی مہلک بیماری (مرزاقادیانی اس سے مراد طاعون اور ہیضہ لیتے ہیں) میں مبتلا کر کے اٹھالے۔ اے میرے مالک تو ایسا ہی کر۔ آمین!‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۳)
دیکھا جائے تو کس قدر عاجزانہ اور پر مغز دعا ہے۔ اﷲتعالیٰ نے اس بناوٹی عاجزی کو مدنظر رکھ کر مرزاقادیانی کی دعا قبول کی اور ایک سال بعد مرزاقادیانی مولوی صاحب کے سامنے مہلک مرض ہیضہ میں مبتلا ہوکر ہلاک ہوگئے اور مولوی صاحب کئی سال بعد تک فاتحانہ زندگی بسر کرتے رہے۔ اس دعا کا مفید اور عمدہ نتیجہ یہ ہوا کہ مرزاقادیانی کا پول کھل گیا اور اپنے اقرار کے مطابق کاذب اور مفسد ٹھہرے۔ چونکہ مرزاقادیانی نے جو علامت مفسد اور کذاب کی مقرر کی تھی۔ آپ اس پر پورے اترے ؎
لکھا تھا کاذب مرے گا پیشتر
کذب میں پکا تھا پہلے مر گیا
اب اگر کوئی راہ ہدایت پر آنا چاہے تو اس کے لئے مندرجہ بالا دو پیش گوئیاں ہی کافی ہیں۔ کیونکہ مرزاقادیانی کے اپنے اقوال کے مطابق مرزاقادیانی اور ان کے حواری کاذب، فریبی، مکار، عیار، کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔
معیار نبوت
اﷲ پاک اپنے مقرب بندوں کو نبی مقرر کرتا ہے جو معاشرے کی اصلاح کے لئے اور انسانوں کو ایک خدا کی اطاعت کا سبق دینے کے لئے آتے ہیں۔ وہ نفس کا غلام بننے کی بجائے اسے اپنا غلام بناتے ہیں اور ان کا نفس اطاعت خداوندی میں ہمیشہ ان کا مطیع رہتا ہے۔ اسی وجہ سے انبیاء معصوم ہوتے ہیں اور اگر انبیاء معصوم نہ ہوتے تو اﷲ اپنی مخلوق کو ان کی بے چون وچرا اطاعت اور متابعت کا حکم نہ دیتا۔ انبیاء کی عقل دوسرے لوگوں کی عقلوں سے ارفع اور اکمل ہوتی ہے۔ ان کی رائے تمام لوگوں کی رائے سے وزنی، مؤثر اور قوی ہوتی ہے۔ فصاحت، بلاغت اور تاثیر سخن میں بھی انبیاء تمام ابنائے عصر پر غالب رہتے ہیں۔