کریمﷺ کے استفسار پر اسی سلوک کی خواہش کی تھی۔ جو حضرت یوسف نے درگذر سے کام لیتے ہوئے اپنے بھائیوں کے ساتھ کیا تھا۔ وہ وقت آنے والا ہے۔ جب یہ لوگ (مسلمان) مجرموں کی حیثیت میں ہمارے سامنے پیش ہوںگے۔ میں ان اخبار نویسوں سے کہتا ہوں کہ اس وقت تم بھی میرے یا میرے قائم مقام کے سامنے آکر یہی کہو گے کہ آپ یوسف ہیں اور ہمارے ساتھ یوسف کے بھائیوں کا سا سلوک کرو۔ میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ تم اپنی طاقت قوت کے گھمنڈ پر جو جی میں آئے کہو اور کرو۔ اس موقع پر میں یا میرا قائم مقام تمہارے ساتھ یوسف والا سلوک ہی کریں گے۔‘‘ آخر میں کہا: ’’آج ہماری جماعت کو جو قوت حاصل ہے۔ وہ پچھلے سال نہیں تھی اور جو آئندہ سال حاصل ہوگی وہ اس سال نہیں۔‘‘ (اخبار آفاق مورخہ ۲۰؍دسمبر ۱۹۵۱ئ)
(یاد رہے کہ یہ تقریر تین سو تیرہ (۳۱۳) مرزائیوں کو جن میں پاکستان کے وزیرخارجہ سرظفر اﷲ بھی شامل تھے۔ سامنے بٹھا کر کی گئی تھی)
مرزابشیرالدین محمود کی ایک اور تقریر
’’اگر ہم محنت کریں اور تنظیم کے ساتھ کام کریں تو ۱۹۵۲ء میں ہم ایک عظیم انقلاب برپا کر سکتے ہیں۔ ہر خادم کو اس عزم سے اس سال تبلیغ کرنی چاہئے کہ اس سال احمدیت کی ترقی نمایاں طور پر دشمن (مسلمان) بھی محسوس کرنے لگے۔ آپ اگر اپنے کاموں پر فریضہ تبلیغ کو مقدم کریں تو یہ نہیں ہوسکتا کہ آپ بھولے ہوئے مسلمان کو ہدایت پر نہ لائیں۔ اپنے ارادوں کو بلند کیجئے کہ خدا کے فرشتے آپ کے کاموں میں آپ کی مدد کے لئے بے تاب کھڑے ہیں۔ دیر آپ کی طرف سے ہورہی ہے۔ ۱۹۵۲ء کو گزرنے نہ دیجئے۔ جب احمدیت کا رعب دشمن (مسلمان) اس رنگ میں محسوس نہ کرے کہ اب احمدیت مٹائی نہیں جاسکتی اور وہ مجبور ہوکر احمدیت کی آغوش میں آگرے۔‘‘ (الفضل مورخہ ۱۶؍جنوری ۱۹۵۲ئ)
ان تقاریر کے بعد کوئی گنجائش ہے کہ ان پر مزید تبصرہ کیاجائے۔ جب کہ مقرر صاف طور پر اپنے مخالفوں کو آئندہ انقلاب کی دھمکیاں دے رہا ہے۔ کون مسلمان ہے جو نہیں جانتا کہ حضور سرور کائنات نے مکہ طاقت سے فتح کیاتھا۔ کیا مرزابشیرالدین محمود (نعوذ باﷲ) محمد رسول اﷲ بن کر پاکستان کو ویسے ہی سلوک کی دھمکیاں دے رہا ہے۔ جو فتح مکہ کے بعد مسلمانوں نے کفر کے ساتھ روا رکھا تھا۔