اس پر طرہ یہ کہ اس پر واہ واہ بھی خود کریں۔ آخر میں یہ نہ بھولئے گا کہ آخرین کے سردار اور آخری فرقہ کے سردار مسیح ناصری میں جو جدت کا فرق نکالا ہے۔ وہ قابل داد ہے۔ عجیب راہ نکال لی۔
قادیانیوں سے قدیم تعلقات
آج کل دیندار انجمن والے اپنی ناک بنانے کے لئے یہ کہا کرتے ہیں کہ ہمارا قادیانیوں سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ بات قابل التفات تو اس لئے نہیں کہ بانی انجمن نے باربار غلام احمد قادیانی کا ادب واحترام سے ذکر کیا ہے۔ بلکہ اپنے اساتذہ وشیوخ میں شمار کیا ہے۔ حتیٰ کہ اس ملعون کو مسیح موعود ماننے کا بھی اعترف کر لیا ہے۔ ان ناقابل تردید حقائق کے ہوتے ہوئے مزید ان کے آپس کے تعلقات کے لئے دلائل کی کوئی صورت نہیں۔ تاہم اس مقصد کے لئے ان کی ذیل کی عبارت بھی ملاحظہ فرمائیے: ’’غرض یہ کہ یوسف موعود (چن بسویشور) اس وقت موجود تھا۔ جس وقت جماعت قادیان اور جماعت لاہور کی مخالفت کا بازار گرم تھا۔ جس نے مئی ۱۹۱۴ء سے ۱۹۲۲ء تک یعنی تقریباً آٹھ سال بہترین مبلغ بن کر مرزاقادیانی کی محبت میں کام کیا۔ تقریباً تمام اضلاع پنجاب کی احمدی جماعتوں کا دورہ کیا۔ اس زمانہ میں کسی کو خبر نہیں تھی کہ اس قدر جوش صدیق میں کیوں ہے۔ اس راز کا علم خود صدیق کو بھی نہیں تھا۔ جب صدیق کی چالیس سال کی عمر پہنچی۔یعنی ۱۹۲۴ء میں اﷲتعالیٰ نے اپنے کلام سے بشارت دی کہ اے یوسف! تو ہی چن بسویشور ہے۔ ’’پھر الہام ہوا۔ ’’یوسف ہے بابا صدیق۔‘‘ غرض بابا یوسف اور صدیق کا نام الہامات میں آنے لگا۔‘‘ (دعوۃ الیٰ اﷲ ص۴۴)
سوچ لیں وہ سادہ لوح مسلمان جن کو دھوکہ میں ڈالنے کے لئے یہ کہا جارہا ہے کہ دیندار انجمن کا قادیانیوں اور ان کے عقائد سے کوئی تعلق نہیں۔ کیا آپ کی نظر میں کسی کی محبت میں کام کرنے کے معنی مخالفت کے ہوسکتے ہیں؟ ’’فشتان بینہما‘‘ حقیقت یہ ہے کہ ان دو شیطانوں کے باہم بہت قریبی مراسم اور تعلقات پائے جاتے ہیں۔ خاص کر صدیق دیندار تو اپنے ہر دعویٰ میں غلام احمد قادیانی کے مسیح موعود وغیرہ ہونے کی تصدیق بھی ملالیتا ہے۔ پھر یہ بے ربطی کہاں رہی ؎
ربط بے ربطیٔ حسن و عشق کیا کیجئے بیاں
بام بے زینہ ہے وہ یہ زینۂ بے بام ہے