کے گمراہ ہوجانے کا خطرہ ہے۔ اس لئے رسول بنانے کے لئے ایک تربیتی کورس، شروع کر دیا۔ اس کا مرکز جہاں سے مکمل رسول بننے کا سرٹیفکیٹ عنایت ہوتا ہے۔ اس کا نام مسلمان نبی بننے والوں کے لئے خانقاہ سرور عالمﷺ اور ہندو نبی بننے والوں کے لئے جگت گروآشرم رکھا۔ دینداروں کے بیک وقت پیغمبر اور خدا نے یہ اعلان بھی کر دیا کہ اب کسی اور کو یہ اختیار نہیں کہ پیغمبر اور رسول بھیجنے کی جسارت کرے۔
سنئے! چن بسویشور کی عبارت ملاحظ کیجئے: ’’حسب بشارت گمنام مقام سے امیوں میں ایک ایسی طاقت (چن بسویشور) کو کھڑا کیاگیا۔ جو مسیح گر ہے۔ (مسیح بنانے والا) اور وہ وجود رسولوں کو جمع کرنے والا ہے۔ جس کی خانقاہ میں وارث انبیاء پیدا ہوتے ہیں۔ مریم بن کر آبیٹھتے ہیں۔ مسیح بن کر نکلتے ہیں۔ چوتھے آسمان سے ساتویں آسمان تک سیر کرائی جاتی ہے۔ کوئی نوح علیہ السلام، کوئی ابراہیم علیہ السلام ہے، کوئی یحییٰ اور کوئی نارو ہے۔ کوئی موسیٰ علیہ السلام اور کوئی جامع جمیع کمالات کا خطاب پایا ہوا ہے۔ کوئی ہرلیا اور کوئی بسویشور اور کوئی نرسہیوں ہے۔ چونکہ اوّلین میں یہ روحانیت تھی۔ آخرین میں بھی وہی روحانیت ہے۔ تاکہ مماثلت پوری ہو۔ کیا دنیا میں کوئی ایسا شخص ہے کہ جس کی خانقاہ کا یہ حال ہو۔ (العیاذ باﷲ خدا دوسروں کو اس سے محفوظ رکھے) کیا کوئی روحانیت کے دعویدار گدی نشین کو مسیح گرو ہونے کا دعویٰ ہے۔ کیا ان کی خانقاہوں میں مثیل انبیاء پیدا ہوتے ہیں۔ برخلاف اس کے ہر گدی اور خانقاہ کا رخ زمین کی طرف ہے۔‘‘
(دعوۃ الیٰ اﷲ ص۳)
نبی ساز یونیورسٹی
محترم قارئین! مسیح گرو کی ترکیب پر غور فرمائیں۔ زرگر کے معنی ہیں سنار۔ آہنگر کے معنی ہیں لوہے کا کاروبار کرنے والا اور مسیح گر کے معنی ہیں مسیح بنانے والا۔ یہ نیا عہدہ مبارک ہو۔ لیکن یہ عجیب اتفاق ہے کہ اس مسیح گر (خدا) کے رسول ابھی تک دنیا میں زندہ ہیں اور خود خدا صاحب جہنم رسید ہو گئے۔ چودھویں صدی کے مکار انگریز کو کچھ ایسے خداؤں کی ضرورت بھی تھی۔ جو رسول اور نبی کا کورس پڑھانے کے قابل ہوں۔ تاکہ خود بیچارے انگریز کو اس کی زحمت نہ اٹھانا پڑے۔ ایک عدد ایسا جامع جمیع کمالات پروفیسر ملا مگر اوّل تو اتنی بڑی نبی ساز یونیورسٹی کو چلانے کے لئے ایسے کئی پروفیسروں کی ضرورت تھی۔ دوسری یہ اور مصیبت آگئی کہ وہ ایک نبی ساز پروفیسر بھی جلد ہی مر گیا۔ اکبر آلہ آبادی مرحوم کا یہ شعر انگریز کی اس ہندی نبی ساز یونیورسٹی پر پورا صادق آرہا ہے ؎