صدیقہ کھانا کھایا کرتے تھے۔ اس جگہ بھی باپ کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ جہاں کہیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کاذکر آتا ہے۔ اس جگہ پر آپ کے باپ کا ذکر نہیں۔ ہم صرف اس فقرے پر بحث کرتے ہیں کہ خداتعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ابوالبشر حضرت آدم علیہ السلام کی مشابہت کیوں کہا اور یہ کیوں نہ کہا کہ حضرت عیسیٰ مثال ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام یا حضرت موسیٰ علیہ السلام کی۔ اس کی یہی وجہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام یا حضرت موسیٰ علیہ السلام کا باپ تھا اور حضرت آدم علیہ السلام کا باپ نہ تھا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا بھی کوئی باپ نہ تھا۔ اس لئے کسی دوسری نبی کی مشابہت نہیں کہا۔ صرف اسی پیغمبر کی مثال کہا۔ جس کا باپ نہ تھا۔ اہل اسلام کا متفقہ عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا کوئی باپ نہ تھا۔ مولانا محمد علی ایم اے۔ امیرجماعت احمدیہ لاہور کی تسلی کے لئے ہم ان کے گھر کی شہادت پیش کرتے ہیں۔ ممکن ہے کہ قرآن حدیث کی شہادت کو قابل تسلیم نہ سمجھیں۔ ہماری غرض تو صرف اصلاحیت ہے۔ اس لئے ہم ان کے گھر کی شہادت پیش کرتے ہیں۔
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
’’ہمارا ایمان اور اعتقاد یہی ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام بن باپ سے تھے اور اﷲتعالیٰ کو سب طاقتیں ہیں اور نیچری یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کا باپ تھا۔ وہ بڑی غلطی پر ہیں۔‘‘
(اخبار الحکم ج۵ نمبر۲۳، مورخہ ۲۴؍جون ۱۹۰۱ء ص۱۱)
معراج جسمانی
اہل اسلام کا متفقہ عقیدہ ہے کہ آنحضرتﷺ معراج کو بجسم عنصری گئے تھے۔ جہاں قرآن مجید پارہ۱۵ میں معراج کا ذکر ہے۔ وہاں اﷲتعالیٰ نے عبد کا لفظ استعمال کیا ہے۔ عبد اس حالت میں بولا جاتا ہے۔ جب کہ روح اور جسم دونوں چیزیں موجود ہوں اور اگر صرف روح موجود ہو جسم نہ ہو۔ تو ہم تب بھی عبد نہیں کہہ سکتے۔ باقی رہی یہ بات کہ حضرت عائشہ صدیقہؓ معراج جسمانی کی قائل نہیں۔ یہ علیحدہ بات ہے۔ معراج جسمانی کے وقت ابھی مائی صاحبہ شیرخوار تھیں۔ کیونکہ معراج ہجرت سے ایک سال پیشتر ہوا۔ مائی صاحبہ جوروحانی معراج کی قائل ہیں۔ اس معراج سے واقعی روحانی مراد ہے۔ کیونکہ نبی کریمﷺ کو معراج جسمانی کے سوا کئی دفعہ معراج روحانی ہوا تھا۔ اب ہم مرزائی دوستوں کی تسلی کے لئے خود ان کے امام کی شہادت پیش کرتے