مرزائیت متحدہ ہندوستان سے باہر
بدقسمتی سے مسلمان نوجوانوں نے مذہبی تعلیم کی کمی کے باعث قادیانی ٹولہ کو بھی اسلام کا ایک ایسا ہی فرقہ خیال کرلیا ہے۔ جیسے شیعہ، سنی، اہل حدیث یا آج کل دیوبندی اور بریلوی ہیں۔ حالانکہ ان مختلف فرقوں کے باہم جھگڑے اسلام کے بنیادی جھگڑے نہیں اور نہ ہی اس ہنگامہ آرائی سے مذہب کو حقیقی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ دراصل آپس کی یہ لڑائیاں وقتی اور محبت رسول کی لڑائیاں ہیں۔ ہر فرقہ محبت میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کھینچا تانی میں کبھی کسی نے اسلام کی عمارت کے بنیادی پتھر مسئلہ ختم نبوت کو اپنی جگہ سے چھیڑنے کی گستاخی نہیں کی اور نہ ہی کہیں اس کی مثال ملتی ہے۔ لیکن قادیانی ٹولہ جسے ہمارے تعلیم یافتہ حضرات نے ہمیشہ اسلام کا ایک جز تصور کئے رکھا ہے۔ اس کے بالکل برعکس اس ٹولے کو نہ تو اسلام سے کوئی تعلق ہے اور نہ اس کا اپنا کوئی مذہب ہے۔ انگریز نے اپنی سیاسی ضرورت کے تحت اس ٹولے کی بنیاد ڈالی تھی اور تمام عمر اس ٹولے کا لیڈر مرزاغلام احمد قادیانی انگریز کے کام آیا اور اس نے نہ صرف ہندوستان کے مسلمانوں کو نقصان پہنچایا بلکہ بلاد اسلامی میں بھی اپنی شیطنت کے جوہر دکھائے۔
۱۸۵۷ء کے بعد خصوصیت سے جو تشدد انگریز نے ہندوستان کے مسلمانوں پر کیا عہد فرنگی میں اس کی مثال تاریخ کے کسی ورق سے نہیں ملتی۔ اس کے باوجود برطانوی استعمار پرستوں کو اطمینان قلب حاصل نہیں تھا۔ یہ کانٹا ہنوزان کے دل میں کھٹکتا تھا کہ یہ شیر ایک دفعہ پھر حملہ آور ہوگا۔ چنانچہ جیسے ہی اسلامی ممالک میں انگریز کے خلاف ذرا ہلچل ہوئی۔ فوراً مرزائی جاسوس وہاں پہنچے اور وہاں کے مسلمانوں کو لگے جہاد کے خلاف وعظ کرنے۔
حکومت افغانستان کے وزیر داخلہ کا ایک بیان میرے اس بیان کی تصدیق کرتا ہے۔ ’’کابل کے دو اشخاص ملاں عبدالحلیم اور ملاں نور علی قادیانی عقائد کے گرویدہ ہو چکے تھے اور لوگوں کو اس عقیدے کی تلقین کر کے انہیں اصلاح کی راہ سے بھٹکا رہے تھے۔ جمہوریہ نے ان کی اس حرکت سے مشتعل ہوکر ان کے خلاف دعویٰ دائر کر دیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مجرم ثابت ہوکر عوام کے ہاتھوں پنجشنبہ گیارہ رجب کو عدم آباد پہنچا دئیے گئے۔ ان کے خلاف مدت سے ایک اور دعویٰ دائر ہوچکا تھا۔ حکومت افغانیہ کے خلاف غیرملکی لوگوں کے سازشی خطوط ان کے قبضہ سے