وزیراعظم خواجہ ناظم الدین سے پرزور اپیل کرتے ہیں کہ وہ سرظفر اﷲ اور ان کی جماعت کی اس لفظی دھوکے بازی پر توجہ مبذول فرماکر مرزابشیرالدین محمود کو اس باعظمت لقب کے استعمال سے اخلاقاً اور قانوناً باز رکھنے کے لئے کوئی ٹھوس قدم اٹھا کر خدمت اسلام سرانجام دیں۔‘‘
(ہفت روزہ حکومت کراچی مورخہ ۱۴؍اپریل ۱۹۵۲ئ)
کافر حکومت کا مسلمان ملازم
’’تمام دنیا کی مسلمان قوموں کی ایک کانفرنس عنقریب کراچی میں منعقد ہونے والی ہے۔ مصر کی تمام جماعتوں نے اس کا خیرمقدم کیا ہے۔ اس خیرمقدم میں ہمارے وزیرخارجہ چوہدری ظفر اﷲ خان کے متعلق چند الفاظ زیرغور ہیں۔ اگرچہ یہ الفاظ بادی النظر میں تو بے ضرر سے ہیں لیکن اس کے نتائج بہت اہم اور دوررس ہوسکتے ہیں۔ وہ الفاظ یہ ہیں: ’’چوہدری ظفر اﷲ خان پاکستان کے وزیرخارجہ جو ایک ہوشیار سیاستدان ہیں۔ انہوں نے زور دیا ہے کہ اسلامی استحکام کو ایک حقیقت بنانے کے لئے ہمیں انتہائی کوشش کرنی چاہئے۔‘‘
کیا اس قسم کے بیانات سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ عالم اسلام چوہدری صاحب کو ایک صحیح مسلمان سمجھتا ہے۔ حالانکہ رسول کریمﷺ کو آخری نبی نہ مانتے ہوئے ان کے صحیح مسلمان ہونے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور کیا غلط فہمی کے پیدا ہونے کی وجہ نہیں ہے کہ ہم نے اپنی حکومت کا اہم ترین شعبہ ان کے سپرد کیا ہے۔ کیا ہماری اس سہل انگاری اور غفلت سے چوہدری صاحب اور ان کے حواریوں کو عالم اسلام میں اور خصوصاً چوٹی کے لوگوں میں قادیانیت کا پروپیگنڈا کرنے کا زریں موقع مل گیا ہے۔ کیا ہم اس طرح پاکستان کے ساتھ ساتھ دوسرے اسلامی ممالک میں بھی قادیانیت کا زہر پھیلانے کے ذمہ دار نہیں ہیں؟ کیا ہم حکومت کی اس پالیسی اور حکمت عملی سے یہ نتیجہ نکالیں کہ حکومت چوہدری صاحب اور قادیانیوں کو اچھا مسلمان سمجھتی ہے۔ حالانکہ چوہدری صاحب خود ایک مرتبہ فرما چکے کہ وہ ایک کافر حکومت کے مسلمان ملازم ہیں۔
چوہدری ظفر اﷲ کافر حکومت کے مسلمان وزیر ہیں یا مسلمان حکومت کے کافر وزیر۔ لیکن ان کی حق گوئی قوت ایمانی اور راسخ العقیدگی ہمارے وزراء اور عوام کے لئے قابل نمونہ ہے۔‘‘ تسنیم! (ہفت روزہ حکومت کراچی مورخہ ۱۴؍اپریل ۱۹۵۲ئ)
ہماری خارجہ پالیسی
’’جس طرح ہمارے غیرملکی سفارتخانے ہمارے ملک کے حق میں آج تک کوئی مفید