جعلی نبی مرزاغلام احمد، قرآن وحدیث کی نظر میں
بسم اﷲ الرحمن الرحیم!
’’ماکان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین وکان اﷲ بکل شیئٍ علیما (الاحزاب:۴۰)‘‘ {(لوگو) محمد(ﷺ) تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں۔ مگر وہ اﷲ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں اور اﷲ ہرچیز کا علم رکھنے والا ہے۔}
قرآن کریم محمدﷺ پر آہستہ آہستہ نازل ہوا اور جس موقع پر جس آیت کی ضرورت محسوس فرمائی۔ اﷲ پاک نے اسی موقع پر آیت نازل کی۔ اسی طرح مندرجہ بالا آیت اس وقت نازل ہوئی جب آپؐ کے منہ بولے بیٹے حضرت زیدؓ کی بیوی حضرت زینبؓ سے آپؐ کا نکاح ہوا اور محمدﷺ کے اس فعل مبارک پر اعتراضات کئے اور کہا کہ آپؐ نے اپنی بہو سے نکاح کیا۔ جب کہ اس سے پہلے آپؐ شریعت محمدی میں بہو سے نکاح کو حرام قرار دے چکے تھے تو اس آیت کا مقصد ایک فتنہ کو مٹانا تھا اور اسی لئے اس بات کی وضاحت کی گئی کہ: ’’ماکان محمد ابا احد من رجالکم‘‘ {محمدؐ تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں۔} یعنی وہ بیٹا تھا کب کہ اس کی مطلقہ سے نکاح حرام ہوتا اور اس چیز کی وضاحت کی گئی کہ محمدﷺ کا سرے سے کوئی جوان بیٹا نہیں ہے۔
مخالفین نے دوسرا اعتراض یہ پیش کیا کہ اگر منہ بولے بیٹے کی چھوڑی ہوئی عورت سے نکاح کرنا جائز ہے تو ٹھیک ہے۔ آخر نکاح کرنے کی ضرورت کیا تھی؟ اس کے جواب میں اسی آیت میں ’’ولکن رسول اﷲ‘‘ {مگر وہ اﷲ کے رسول ہیں۔} یعنی یہ ضروری تھا کہ حلال چیز کو جن فرسودہ رسموں نے خواہ مخواہ حرام کر رکھا ہے۔ اس کے بارے میں تعصبات اور غلط فہمیاں ختم ہو جائیں اور کسی شک وشبہ کی گنجائش باقی نہ رہے اور پھر زور دار الفاظ میں تاکید فرمائی کہ: ’’وخاتم النبیین‘‘ وہ خاتم النبیین ہیں کہ آپ(ﷺ) کے بعد چونکہ کوئی نیا نبی نہیں آئے گا۔ اس لئے معاشرے میں کوئی پیچیدگی باقی نہ رہ جائے۔ اسی لئے آپؐ نے حضرت زینبؓ سے نکاح کیا اور آپؐ کا یہ فعل آخری نبی ہونے کی واضح دلیل ہے۔
اس آیت سے یہ بات بغیر کسی پیچیدگی کے واضح ہو جاتی ہے کہ محمدﷺ آخری نبی تھے