مرزائی صاحبان یہ بتاسکتے ہیں کہ یہ لکھتے وقت مرزاقادیانی کے دل میں کس کا ڈر تھا۔ خدا ملک عظیم عطا کر رہا ہے۔ خود تفسیر میں لکھ رہے ہیں۔ ’’زمین کے خزانے کھولے جائیں گے‘‘ اور بن گئی ’’روحانی بادشاہی‘‘ یا اﷲ بچانا حکمرانوں کے خوف سے۔
آخری شعر اپنی تفسیر قصیدہ میں یہ لکھا ہے اور اس نے سب دعوؤں کو ثابت کر دیا ہے۔
مہدی وقت وعیسیٰ دوران
ہر دورا شہسوارمے بینم
تشریح: ’’یعنی وہ مہدی بھی ہوگا اور عیسیٰ بھی۔ دونوں صفات کا حامل ہوگا اور دونوں صفات سے اپنے تئیں ظاہر کرے گا۔ یہ آخری بیت عجیب تصریح پر مشتمل ہے۔ جس سے صاف طور پر سمجھا جاتا ہے کہ خداتعالیٰ کی طرف سے حکم پاکر عیسیٰ ہونے کا بھی دعویٰ کرے گا اور ظاہر ہے کہ یہ دعویٰ تیرہ سو برس سے آج تک کسی نے بجز اس عاجز کے نہیں کیا کہ عیسیٰ موعود میں ہوں۔‘‘ شعر کیا ہے اور اس تشریح میں کیا نکات اور کیا دلچسپیاں ہیں۔ قارئین خود اندازہ لگالیں۔ ہم حضرات مرزائیہ سے صرف ’’ہر دو‘‘ کے معنی پوچھیں گے اور بس۔
بنمائے بصاحب ہنرے جوہر خودرا
عیسیٰ نتواں گشت بتصدیق خرے چند
ترک اور جناب مرزاقادیانی
کتاب نشان آسمانی کے شروع میں جہاں مرزاقادیانی نے قصیدہ سارے کا سارا نقل کیا ہے۔ قصیدہ کو ختم کر کے کسی منشی محمد جعفر کے خلاف جس نے یہ کہا ہوگا کہ یہ قصیدہ حقیقتاً سید احمد صاحب بریلوی کے حق میں تھا۔ لکھتے ہوئے مرزاقادیانی مفصلہ ذیل شعر سے استدلال کرتے ہیں اور ثابت کرتے ہیں کہ اس قصیدہ کا صحیح مخاطب میں ہوں۔ نہ سید احمد بریلوی۔ اصلی شعر ہےترک عیار مست مے نگرم
خصم او در خمارمے بینم
مرزاقادیانی نے اس کو یوں لکھا ہے یا پڑھا ہے۔
ترک عیار سست مے نگرم
خصم او در خمارمے بینم
قصیدہ میں اس شعر کا جو محل ہے ہم اس پر بحث نہیں کرتے۔ کیونکہ امام موعود کے ظہور کے بعد جب زمانہ کا یہ حال ہوگا کہ ؎