گوئیاں کیں اور اسی سلسلے میں (آئینہ کمالات اسلام ص۲۸۸، خزائن ج۵ ص ایضاً) میں لکھتے ہیں: ’’ہمارا صدق یا کذب جانچنے کو ہماری پیش گوئی سے بڑھ کر کوئی محک امتحان نہیں۔‘‘ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مرزاقادیانی کا کذب وصدق معلوم کرنے کے لئے پہلا اور سب سے بڑا معیار ان کی پیش گوئیاں ہیں۔ اب ہم ان کی چند پیش گوئیوں کا جائزہ لیتے ہیں۔ جن کو خاص طور پر مرزاقادیانی نے اپنے صدق وکذب کا معیار قرار دیا ہے۔
مرزاقادیانی کی جھوٹی پیش گوئی
احمد بیگ صاحب ہوشیارپوری مرزاقادیانی کے قریبی رشتہ دار تھے۔ جو اپنی نوجوان لڑکی کے ہمراہ کسی کام سے قادیان گئے اور مرزاقادیانی کے ہاں قیام پذیر ہوئے۔ اتفاق سے وہ کام مرزاقادیانی کے ذریعے ہوسکتا تھا۔ جس میں انہیں ایثار اور قربانی کرنا پڑتی تھی۔ (جوان کے ہاں مفقود ہے) آخر مرزاقادیانی نے وہ کام اس شرط پر منظور کیا کہ وہ اپنی لڑکی کی شادی میرے ساتھ (یعنی مرزاقادیانی سے) کر ے۔ اگر غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ مرزاقادیانی نے کس بے حیائی کا ثبوت دیا اور کاروباری نقطۂ نظر سے کام کرنے کے عوض ان کی لڑکی کا رشتہ اس وقت طلب کیا۔ جب کہ وہ خود اپنی آخری عمر میں تھے اور لڑکی سولہ سال کے لگ بھگ تھی۔ میرا خیال ہے کہ مرزاقادیانی اور ان کے حواری اپنی لڑکیوں کا بھی (شرم وشرافت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے) اسی طرح کاروبار کرتے ہوںگے۔ حالانکہ یہ بات کسی بھی شریف آدمی کو زیب نہیں دے سکتی۔ مرزاقادیانی تو مدعی نبوت بھی ہیں۔ کیا مرزائیوں کے نزدیک معیار نبوت یہی ہے۔
اب میں ان پیش گوئیوں کا ذکر کرتا ہوں۔ جو مرزاقادیانی نے احمد بیگ کو اپنی لڑکی محمدی بیگم کی شادی مرزاقادیانی کے ساتھ نہ کرنے پر کیں۔ مرزاقادیانی نے ایک خط مرزا احمد بیگ کو لکھا جس کا اقتباس یہ ہے: ’’خدا تعالیٰ نے اپنے کلام پاک سے مجھ پر ظاہر کیا کہ اگر آپ اپنی دختر کلاں کا رشتہ میرے ساتھ منظور کریں تو وہ تمام نحوستیں آپ کی دور کر دے گا اور اگر یہ رشتہ وقوع میں نہ آیا تو آپ کے لئے دوسری جگہ رشتہ کرنا ہرگز مبارک نہ ہوگا اور اس کا انجام درد، تکلیف اور موت ہوگی۔ یہ دونوں طرف برکت اور موت کی ایسی پیش گوئیاں ہیں کہ جن کو آزمانے کے بعد میرا صدق وکذب معلوم ہو سکتا ہے۔‘‘
اس خلاف تہذیب اور بازاری غنڈوں کی زبان میں دھمکی آمیز خط سے ڈرنے کی