سچ فرماتے ہیں۔ میں بھی تائید کرتا ہوں کہ آپ مثیل موسیٰ بلکہ عین موسیٰ ہیں۔ لیکن پتہ ہے کون سا؟ وہی موسیٰ جس کے بارے میں ارشاد ہے ؎
فموسیٰ الذی رباہ جبریل کافر
(اس عبارت میں موسیٰ سے مراد سامری ہے۔ سامری کا نام بھی موسیٰ تھا۔ مرتب)
آپ کا کوئی قصور نہیں۔ مرزاقادیانی کا الہام سمجھنے میں کچھ غلطی ہوئی ہے اور یہ اجتہادی غلطی ہے۔ آپ کے شیخ الشیخ حضرت مرزا علیہ ما علیہ سے بھی ایسی ہی غلطی ہوئی تھی۔ شیطان نے دل میں وہم ڈالا تو وہ سمجھے کہ یہ وحی نازل ہورہی ہے۔
بہر رنگے کہ خواہی جامہ می پوش
حد یہ کر دی کہ ہوس نبوت جب بڑھی تو اپنے لئے مختلف نام تجویز فرمائے اور ہونا بھی چاہئے۔ اس لئے کہ صرف چن بسویشور، یوسف موعود، مثیل موسیٰ، مصلح موعود، مأمور وقت، شنکر اور پرماتما وغیرہ کے دعوؤں سے کہاں تسلی ہوتی۔ چنانچہ اپنے الہامی ناموں کا اعلان کر دیا۔ ’’لہٰذا آج پچیس سال سے مجھ سے مکالمہ الٰہیہ جاری ہے اور میرے اعزای نام یہ ہیں: اے پیران پیر، محمد، امام الغیب، صدیق، کلیم اﷲ، سپہ سالار، محبوب، تومحمد جلال ہے، مہدی آخر الزمان، دھن پتی، دیندار، محی الدین، صادق جنگ، سری پتی، اے تاج الاولیائ، فاتح ہندوستان، نور محمد، محمد صدیق، جری اﷲ، اے نبی کے فرزند، سکندر اعظم، عبدالقادر، عبداﷲ، موسیٰ، سلیمان، مولانا نگہبان، اے عیسیٰ، اے پہلوان، عادل میران صاحب، اے میرے آسمان کے تارے، بی بی فاطمہ کے لعل، اندر جیونی، میرے صابر، چراغ دہر، سلطان نصرالد ولہ، کروناتھ، یا منصوراور بھی کئی نام ہیں۔ ان ناموں کے علاوہ مجھے باربار یوسف پکارا گیا اور کھلے الفاظ میں اﷲتعالیٰ نے کہا یوسف ہے بابا صدیق اور کہا تو ہی چن بسویشور ہے۔‘‘ (دعوۃ الیٰ اﷲ ص۳۵)
ایک ہی شجر کے برگ وبار
خلیفۂ قادیان کے بارے میں لکھا ہے: ’’اے خلیفۂ جماعت احمدیہ میں آپ کو ایک زمانے سے جانتا ہوں کہ آپ متقی ضرور ہیں۔‘‘ (خادم خاتم النبیین ص۷۳)
اسی صفحہ پر مزید تقدیس بیان کرتے ہیں: ’’بھلا اس وقت کیا حال ہوگا جب دیر بسنت (اولوالعزم محمود) دکن تشریف لائیں گے۔ میں میاں محمود احمد صاحب کو دکن کی بشارتوں کی بناء پر خلیفۂ جماعت احمدیہ مانتا ہوں۔ گو لاہور کی جماعت مخالف ہی کیوں نہ ہو۔‘‘