نے اپنے خصوصی پٹھو وزیراعظم عراق نور السعید پاشا کے توسط سے اسی قسم کی ایک اور تجویز مصر کے سرپر دے ماری ہے۔ اطلاع یہ ہے کہ مصر اسے ٹھکرا چکا ہے۔ لیکن سرظفر اﷲ خان نے اپنے تازہ بیان میں اس تجویز کی حمایت فرمائی ہے اور نورالسعید پاشا اور ظفر اﷲ خان صاحب کے درمیان دوبارہ ملاقات بھی ہوچکی ہے۔ یہ بالکل واضح ہے کہ اس وقت مصر اور ایران میں پٹ چکنے کے بعد انگریز مشرق وسطیٰ کی بساط سیاست پر نور السعید پاشا کو بطور مہرہ استعمال کر رہا ہے۔ نورالسعید پاشا اور چوہدری ظفر اﷲ خان صاحب کے درمیان جس قدر گاڑی چھن رہی ہے۔ اس سے لازماً خیال پیدا ہوتا ہے کہ کہیں پاکستان کے وزیرخارجہ بھی تو مصر اور مسلمانان مشرق وسطیٰ کی جدوجہد آزادی کے خلاف بطور مہرہ استعمال نہیں ہورہے۔ کیا دنیا کے مسلم ممالک اور مسلم عوام کی رہنمائی کے فرائض اسی طرح برطانوی محکمہ خورجہ کے ذریعہ انجام دئیے جائیں گے۔ ہم پوچھتے ہیں کہ کیا مسلمانان پاکستان کے اس مطالبے کا کہ ہم کامن ویلتھ چھوڑ دیں۔ اسی طرح جواب دیا جائے گا کہ ہم اپنی خارجہ حکمت عملی کو برطانوی خواہشات ومفادات کا اور بھی پابند بنالیں؟ برطانوی خارجہ حکمت عملی جس کا ایک کرشمہ یہ ہے کہ آج کشمیر کے چالیس لاکھ عوام ہندوستان میں شامل ہیں۔ اس خارجہ حکمت عملی کی اطاعت وفرمانبرداری سرظفر اﷲ خان صاحب کس حساب سے ضروری قرار دے رہے ہیں؟ یہ ایک اہم سوال ہے اور اسے ایک لمحے کے لئے بھی نظر انداز نہیں کیاجاسکتا۔‘‘ (روزنامہ امروز لاہور مورخہ ۲۹؍نومبر ۱۹۵۱ئ)
یورپ کے بے گھر مسلمان اور سرظفر اﷲ قادیانی
’’پچھلے دنوں آنریبل سرظفر اﷲ وزیر امور خارجہ حکومت پاکستان نے پارلیمنٹ میں مسٹر نور احمد کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے بتایا کہ حکومت پاکستان نے مہاجرین کے عظیم مسئلہ کے باوجود یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ یورپ کے ایسے بے گھر مسلمانوں کو پاکستان میں آباد کرنے کے متعلق غور وخوض کرے گی۔ جو اس ملک کے لئے مفید ثابت ہوںگے۔ چنانچہ مہاجرین کے بین الاقوامی ادارہ کے ڈائریکٹر سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ ایسے بے گھر مسلمانوں کی فہرست دیں۔
ہم وزیرخارجہ سرظفر اﷲ سے آج یہ دریافت کرنے کی جرأت کرتے ہیں کہ جنہیں یورپ کے بے گھر مسلمان کے نام سے پکارا جارہا ہے۔ کیا یہ مسلمان ہیں؟ یا آپ کی جماعت