مقام محمود پر ڈاکہ زنی
چن بسویشور کے چیلے عبدالغنی نے اپنی کتاب شمس الضحیٰ میں ایک شعر لکھا ہے ؎
زمانے میں قرآن مشہود ہے اب
کہ ذات محمدی محمود ہے اب
حاشیہ مین اس شعر کی طویل تشریح کی ہے اور ایسی تاویل کی ہے کہ بلاشبہ لفظ تاویل بلکہ لفظ شرم کو بھی شرم آتی ہے۔ لکھتے ہیں: ’’چونکہ سارے اولیاء حضور کی مدح میں گم تھے۔ لیکن کسی ولی کو مقام محمود، حاصل نہیں ہوا۔ اس لئے کہ وہ دور آگے تھا۔ جیسے کہ اس آیت سے روشن ہے۔ ’’عسیٰ ان یبعثک مقاماً محموداً‘‘ آیت کے اس تیسرے حصہ میں حضورﷺ کی ذات کو مقام محمود پر لانے کی بشارت دی گئی ہے۔ یہ دور آخر ہے۔ جو موعود ہے۔ حضور نے اسی مقام محمود والی بعثت کے لئے مسلمانوں کو بعد اذان دعا سکھائی۔ جس کی تعمیل میں ہر مسلمان ’’وابعثہ مقاماً محموداً‘‘ کے الفاظ دہراتا ہے۔ ادھر نماز کے قعدہ میں شہادت کی انگلی اسی بعثت ثانی کی شہادت میں اٹھائی جاتی ہے۔ جس کا انتظار مسلمانوں میں ہے۔ وہی بعثت مقام محمود والی بعثت ہے۔ جس سے ظاہر ہے کہ محمد رسول اﷲ ہر تیرہ سو سال کے بعد ایک امتی کی قبا پہن کر جلوہ گر ہوں گے۔ اسی لئے قعدہ میں ’’السلام علیک ایہا النبی‘‘ کہا جاتا ہے کہ جس سے حضور سے مخاطبت ہوتی ہے۔ ’’ایہا النبی‘‘ کی مخاطبت غائب کی نہیں ہے۔ بلکہ آنکھوں سے دیکھنے کی حجت پیش کرتی ہے… بہرصورت یہ بعثت ثانی کس رنگ میں ہوگی۔ بعثت ثانی میں وہ اپنا نام کیا پائے گی۔ اس کے لئے خود اﷲتعالیٰ نے قرآن میں حضور سے دعاء کرنے کے لئے کہا ہے۔ وہ یہ ہے۔ ’’قل رب ادخلنی مدخل صدق… سلطانا نصیراً‘‘ حضور کے سارے کمالات روحانی کا اگر کوئی وجود متحمل ہوسکتا ہے تو وہ وجود صدیق اکبر کا ہے۔ بعثت اوّل میں بھی صدیق تھے۔ بعثت ثانی میں بھی صدیق ہی ہیں… پس اب ظاہر ہوا کہ حضور شاہد ومشہود بھی ہیں اور روز قیامت میں محمود بھی اور اس طرح جب آپ کا اعادہ ہوتا ہے تو موعود بھی ہیں… حقیقت یہ ہے کہ یہ آخری بعثت ہے۔ جس کو ’’والبعث بعد الموت‘‘ بھی کہاگیا ہے۔ حضورؐ کے سوا کوئی دوسرا وجود اس امت کی اصلاح کے لئے کھڑا نہ ہوگا۔ یعنی اس امت میں ہی ایک کامل انسان بروز محمد کی شکل میں مبعوث ہوگا۔‘‘ (اقتباسات از کتاب شمس الضحیٰ ص۳۰،۳۱)