شاہ نعمت اﷲ کرمانی کے متعلق مرزاقادیانی کے محققانہ اور مؤرخانہ معلومات
آپ (نشان آسمانی ص۹، خزائن ج۴ ص۳۶۹) میں لکھتے ہیں: ’’واضح ہو کہ نعمت اﷲ ولی رہنے والے دہلی کے نواحی کے اور ہندوستان کے اولیائے کاملین میں سے مشہور ہیں۔ ان کا زمانہ ۵۶۰ھ ان کے دیوان کے حوالہ سے بتایا گیا ہے۔‘‘ کاش مرزاقادیانی بذریعہ کشف والہام ہی پتہ لے لیتے کہ شاہ صاحب پیدا حلب میں ۷۳۰ھ میں ہوئے تھے اور انتقال ۸۳۴ھ میں ماہان (ایران) میں کیا۔ اگر یہ اس رسالہ میں دیا ہوا جس سے مرزاقادیانی نے قصیدہ نقل کیا ہے کہ شاہ صاحب ہندوستان کے رہنے والے تھے تو خیر۔ ورنہ اگر یہ بھی مرزاقادیانی کی اپنی افتراع ہے تو یہ ثابت ہوگا کہ مرزاقادیانی چونکہ خود ہندوستانی تھے۔ اس لئے اس ولی کا وطن بھی ہندوستان میں بتایا۔ تاکہ پیش گوئی کی نسبت خیال ہو کہ ضرور کسی ہندوستانی مہدی کے لئے ہے۔
مفصلہ ذیل شعر کی تشریح مرزاقادیانی نے معلوم ہوتا ہے اسی خیال کو مدنظر رکھ کر کی ہے۔
جنگ و آشوب وفتنۂ وبیداد
درمیان وکنارمے بینم
تشریح: یعنی ہندوستان کے درمیان میں اور اس کے کناروں پر بڑے بڑے فتنے اٹھیں گے اور جنگ ہوگا۔ (کاش جناب مرزاقادیانی زندہ ہوتے اور ہم انہیں بتاتے کہ جنگ ہوگی) اور ظلم ہوگا۔ کیا کوئی مرزائی حضرات بتاسکتے ہیں کہ اس شعر کی تشریح میں ہندوستان کا ذکر خیر کیوں آیا ہے۔
مرزاقادیانی کا اس قصیدہ کا ماخذ
فرماتے ہیں۔ (نشان آسمانی ص۹، خزائن ج۴ ص۳۶۹، ۳۷۰) جس کتاب میں ان کی (شاہ نعمت اﷲ کی) یہ پیش گوئی لکھی ہے۔ اس کے طبع کا سن بھی ۲۵؍محرم الحرام ۱۸۶۸ء ہے۔ اس حساب سے اکتالیس برس ان ابیات کے چھپنے پر بھی گذر گئے اور یہ ابیات رسالہ اربعین فی احوال مہدین کے ساتھ شامل ہیں۔ جو مطبوعہ تاریخ مذکورہ بالا ہے۔ کیا حضرات مرزائیہ یہ رسالہ دکھا کر مسلمانوں کو ممنون احسان کریں گے۔ تاکہ مرزاقادیانی کی نقل اور اس اصل کا مقابلہ ہو سکے۔ گوباقی اعتراضات ویسے کے ویسے ہی رہیں گے۔