انصاف کرتے چشم حق بین کو وا کرتے تو یہ زنگ مجھ سے دور کرنے کی کوشش کرتے۔ نہ کہ اور چڑھاتے۔ خیر انہوں نے جتنا پردہ زنگاری میں مجھے چھپایا۔ میری اتنی ہی قدر اور بڑھی اور میرے شوق دید نے آخر دلوں کو گرمایا اور مجھ کو اصلی رنگ میں دیکھنے پر آمادہ کیا۔ یعنی ہر رنگ کے جامہ میں میرا انداز قدوہی رہا جو تھا۔
شاہ نعمت اﷲ کرمانی کی پیش گوئی اور مرزاقادیانی
کلام شاہ کرمانی نشان آسمانی ہے
کہ کاذب جس سے ثابت مدعی قادیانی ہے
موجودہ مستشرقین یورپ میں پروفیسر برون چوٹی کے ادباء میں شمار ہیں۔ فارسی علم ادب وتاریخ پر آپ سند ہیں۔ اس وقت جب کہ تمام مشرقی علوم وفنون کے خزانے اہل مغرب کے گھروں میں منتقل ہوگئے ہیں۔ پروفیسر موصوف جیسے فراخ حوصلہ آدمی جب کبھی ہم شرقیئین کو ہماری لٹی ہوئی دولت سے بطور صدقہ وخیرات کچھ عنایت فرمائیں تو اسے قبول کرتے وقت بیشک ہم کو پشیمان بھی ہونا چاہئے اور غیرت میں بھی آنا چاہئے۔ مگر ساتھ ہی ان کے جائز شکریہ میں بھی بخل سے کام نہ لینا چاہئے اور تصانیف کے علاوہ فارسی علم ادب کی تاریخ پر آپ ہمیں گران بہا ومستند کتابیں لکھ لکھ کے دے رہے ہیں۔ اس سلسلہ کی تیسری کتاب ابھی ابھی ولایت میں چھپ کر یہاں پہنچی ہے۔ اس کا نام ہے۔ ’’فارسی علم ادب درعہد تاتاریاں‘‘ اس کتاب میں تاتاری زمانہ کے شعراء کے تذکرہ میں پروفیسر صاحب نے شاہ نعمت اﷲ کرمانی کے حالات وسوانح لکھے ہیں ان کے مشہور مگر غیرمطبوع قصیدہ (بردیف مے بینم) کو جس میں بہ سبیل کنایات امام مہدی علیہ السلام کے ظہور اور دیگر ملحقہ واقعات کے متعلق پیش گوئی کی گئی ہے۔ درج کیا ہے۔ اس معاملہ میں پروفیسر موصوف کی تحقیق وتدقیق کا اندازہ صرف اسی امر سے ہوسکتا ہے کہ وہ خود اپنے ایران کے سفر میں ماہان جہاں شاہ صاحبؒ کا مزار ہے، گئے ہیں اور وہاں اس قصیدہ کا وہ نسخہ حاصل کیا ہے۔ جس کو وہ نہایت معتبر اور سب سے قدیم بتاتے ہیں۔ ایسی قومیں کیوں نہ دنیا پر حکمرانی کریں۔ جن میں اس اس قسم کے محقق افراد موجود ہوں جو غیرممالک میں علمی تحقیقوں کی خاطر سفروں کی اتنی زحمتیں گوارا کریں۔ یہ تحقیقات خواہ اسی بناء پر کی جاتی ہوں کہ اقوام جن پر حکومت کرنا مطلوب ہو۔ ان کے قلب ودماغ کے رجحان کا پتہ چلائیں۔ تاہم اس میں شک نہیں کہ یہ ہنر مند وہوشیار لوگ جو تحقیق بھی کرتے ہیں اور خاص کر علمی اور ادبی تحقیق وہ تعصب اور طرفداری کی لوث سے پاک