’’خارجہ پالیسی کے مسئلہ پر ہم ایک سے زائد بار توجہ دلا چکے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کوئی معین خارجہ پالیسی ترتیب ہی نہیں دی گئی۔ حالانکہ جب کوئی پالیسی ناکام ہوتی ہے تو فوراً اس پر نظر ثانی کی جاتی ہے۔ لیکن ہمارے یہاں مسلسل ناکامی کے باوجود اسی پالیسی پر عمل ہورہا ہے اور طرفہ یہ کہ جب اس پر نکتہ چینی کی جائے تو اس کے جواز میں نئے نئے استدلال پیش کئے جاتے ہیں۔ قومی پالیسی کی تشکیل کے لئے دستور کی موجودگی ضروری ہے اور یہاں حال یہ ہے کہ ابھی تک ہم قومی ترانہ بنانہیں پائے۔ آئین ودستور تو ابھی دور کی بات ہے۔‘‘
(روزنامہ احسان لاہور مورخہ ۴؍اپریل ۱۹۵۲ئ)
چوہدری ظفر اﷲ خاں کی سرگرمیاں
’’پیرس میں ان دنوں جنرل اسمبلی کا اجلاس ہورہا ہے۔ جس میں ہمارے وزیر خارجہ چوہدری ظفر اﷲ خان صاحب پاکستان کے نمائندہ کی حیثیت سے شریک ہیں۔ چند ہی روز ہوئے کہ نہر سویز کے سوال پر موصوف نے ایک ایسا بیان دیا جسے سن کر پاکستان کی رائے عامہ ہکا بکا رہ گئی۔ تمام لوگوں نے اس بیان کو عوام پاکستان کے مؤقف کی غلط ترجمانی سے تعبیر کیا۔ ظفر اﷲ خان صاحب کا خیال ہے کہ نہرسویز کے معاملے میں مصر بھی اسی طرح قصور وار ہے جس طرح برطانیہ۔ حالانکہ پاکستان کے عوام صرف برطانیہ کو قصوروار ٹھہراتے ہیں۔ کیونکہ اس نے زبردستی مصر کے سر پر گورا فوج مسلط کر رکھی ہے۔ اگر یہ بیرونی فوج وہاں سے ہٹ جائے اور سوڈان کو برطانیہ خالی کر دے تو یہ تنازعہ بھی ختم ہو جائے۔ لیکن ظفر اﷲ خان صاحب نے اپنے بیان میں ایک لفظ بھی ایسا نہیں کہا جس میں سویز سے گورا فوج کے انخلاء اور سوڈان میں غیرجانبدارانہ رائے شماری کی تائید ہوتی ہو۔ حالانکہ ہم خود کشمیر سے بیرونی فوج کے انخلاء اور وہاں غیرجانب دارانہ رائے شماری کرانے کا مطالبہ پیش کرتے رہے ہیں۔
اب خود کشمیر کی بابت چوہدری ظفر اﷲ خان صاحب نے ایک ایسا عجیب بیان دیا ہے۔ جس سے پاکستان کی رائے عامہ چونک اٹھی ہے اور ہر شخص یہ محسوس کر رہا ہے کہ آخر ظفر اﷲ خان صاحب کا مطلب کیا ہے۔ پیرس کے اخبار کمبیسٹ کا حوالہ دیتے ہوئے ایسوسی ایٹڈ پریس نے ظفر اﷲ خان صاحب سے ذیل کے بیانات منسوب کئے ہیں۔ ڈاکٹر گراہم کی کوششوں کے بارے میں رائے قائم کرنا قبل ازوقت ہے۔ ہندوستان کو چاہئے کہ کشمیر کی افسوسناک صورتحال کو ختم کرنے کے لئے ڈاکٹر گراہم کی تجویز منظور کر لے۔