اللسان ہے۔ اس کا سیاسی کردار غیرمشکوک نہیں ہوسکتا۔ دوسرے اگر عرب ممالک کے نمائندوں نے چوہدری ظفر اﷲ کی تعریف کی ہے تو اس کی وجہ ان کے ممدوح کی ذاتی صلاحیت نہیں بلکہ یہ ہے کہ وہ پاکستان کے وزیرخارجہ ہیں۔ پاکستان دنیائے اسلام میں ایک نئی قوت بن کر ابھرا ہے۔ اس لئے وہ قدرتی طور پر دنیا کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے میں کامیاب ہوچکا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کی نمائندگی کے فرائض چونکہ چوہدری ظفر اﷲ کو سونپ دئیے گئے ہیں۔ اس لئے جو خراج تحسین دراصل پاکستان کو ادا کیا جاتا ہے۔ اس کے مستحق چوہدری ظفر اﷲ خان بن جاتے ہیں۔ بہرحال یہ واقعہ ہے کہ اگر پاکستان کی خارجہ پالیسی ابھی تک مضبوط بنیادوں پر قائم نہیں ہوسکی تو اس کا حقیقی سبب ظفر اﷲ خان کی ذات ہے۔ جس کی خوش عقیدگی کا دامن برطانیہ سے بندھا ہوا ہے۔ لہٰذا ہمارے نزدیک اگر پاکستان کشمیر کے مسئلہ کو پرامن ذرائع سے حل کرنے کا متمنی ہے تو اسے اپنی خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔ لیکن پاکستان کی خارجہ پالیسی پر اس وقت تک نظر ثانی نہیں ہوسکتی۔ جب تک چوہدری ظفر اﷲ خان کو موجودہ عہدے سے سبکدوش نہیں کیا جاتا۔‘‘
(ایڈیٹوریل، زمیندار مورخہ ۳۱؍مارچ ۱۹۵۲ئ)
کوتاہیاں اور سہل انگاریاں
’’معاصر محترم زمیندار نے پاکستان کی قومی پالیسی اور اس کے آئین پر اپنے افتتاحیہ میں آج تبصرہ کیا ہے۔ معاصر نے لکھا ہے کہ: ’’اگرچہ پاک پارلیمان نے برسراقتدار پارٹی کے غیرنمائندہ ارکان کی اکثریت کے بل بوتے پر اس معاشی اور مالی لائحہ عمل پر مہر ثبت کر دی ہے جس کا خاکہ بجٹ کی تقریر میں کھینچا گیا تھا۔ تاہم یہ حقیقت ہے کہ اگر ان تمام نکتہ چینیوں کا مکمل غیرجانبداری سے جائزہ لیا جائے جن کا تختہ مشق حکومت پاکستان کی حکمت عملی کو بنایا گیا تو ایک ہی نتیجہ پر پہنچنا پڑتا ہے کہ جہاں تک قومی پالیسی کا تعلق ہے۔ اس کی بنیاد ہی دکھائی نہیں دیتی۔‘‘
بے شک ہمیں معاصر کی اس رائے سے پورا اتفاق ہے کہ جہاں تک موجودہ حالات کا تعلق ہے۔ حکومت پاکستان کے ہاں قومی پالیسی کی بظاہر کوئی بنیاد دکھائی نہیں دیتی اور یوں معلوم ہوتا ہے جیسا کہ اس کا داخلی اور خارجی نظام کار پہلے کے کسی سوچے سمجھے ہوئے لائحہ عمل پر نہیں چل رہا۔ باقی رہا یہ سوال کہ چونکہ پاک پارلیمنٹ میں برسراقتدار پارٹی کے ارکان غیرنمائندہ ہیں۔ اس لئے ان کی اکثریت کے بل بوتے پر جو معاشی اور مالی لائحہ عمل منظور ہوتا ہے۔ وہ قومی پالیسی کا آئینہ دار نہیں ہوسکتا تو یہ ایک ایسی بات ہے جو میاں افتخار الدین آئے دن پاک پارلیمنٹ میں