خدمات انجام نہیں دے سکے ہیں۔ اسی طرح ہماری وزارت خارجہ بھی اپنی پالیسی میں ہر جگہ بری طرح ناکام ثابت ہوئی ہے اور اس کی یہ ناکامی ہمیں کشمیر کی صورت میں بھگتنا پڑ رہی ہے۔ ہماری خارجہ پالیسی کے کمزور پہلوؤں سے آج ایک دنیا واقف ہوچکی ہے اور اس طرح ہمارا وہ وقار بھی مجروح ہوچکا ہے جو ایک آزاد قوم کا متاع حیات ہے۔
خارجہ پالیسی کی ناکامی کی وجہ ہی سے عالمی سیاست میں پاکستان کو ایک ایسا مہرہ تصور کر لیا گیا ہے۔ جس کا نہ تو کوئی بنیادی نصب العین ہے اور نہ اپنی کوئی مضبوط روش۔ ہماری کمزور خارجہ پالیسی کے دور رس اثرات ملک کو اجتماعی حیثیت سے جو نقصان پہنچا چکے ہیں۔ اس کو دیکھتے ہوئے صرف یہی کہا جاسکتا ہے کہ ہماری تاریخ کا عنوان کہیں ہماری کمزور خارجہ پالیسی سے شروع نہ ہو۔‘‘ (پندرہ روزہ عزم بغداد الجدید مورخہ ۲۵؍مارچ ۱۹۵۲ئ)
وزیر خارجہ کا ربوہ کا طواف
’’ہمارے وزیر خارجہ چوہدری محمد ظفر اﷲ خان صاحب خیر سے آج کل ربوہ کا طواف کر رہے ہیں۔ آپ کے بھائی بندوں میں آپ کے لئے بے حد عقیدت اور احترام کا جذبہ پایا جاتا ہے۔ ہمارے نامہ نگار خصوصی کا بیان ہے کہ چوہدری صاحب کی اس پراسرار آمد پر چنیوٹ کے شوالہ سے لے کر لائل پور کی جامع مسجد کے میناروں تک چہ میگوئیاں ہورہی ہیں۔
جب چوہدری صاحب ربوہ پہنچے تو کہتے ہیں کہ وہاں کے چند احباب نے چوہدری صاحب سے سیاسی چھیڑ خانی کرنا چاہی۔ مگر آپ چپ سادھے رہے اور سلامتی کونسل یا مسئلہ کشمیر کے متعلق کچھ کہنے سے احتراز کرتے رہے۔ یہ تو ہم خوب سمجھتے ہیں کہ ہمارے وزیر خارجہ نے چشم بددور اپنی دھواں دھار تقریروں سے بھارت کو ساری دنیا میں ننگا کر دیا ہے۔ مگر بھارت کا مہادیوتو اب بھی اپنی توند کو سہلاتا ہوا بھیانک قہقہے لگا رہا ہے اور کہہ رہا ہے یہ تمہارا جوناگڑھ، یہ رہا تمہارا مانگرول، یہ رہا تمہارا حیدرآباد اور ادھر دیکھو میری مٹھی میں تمہارا کشمیر اور بھارت کی بھیروں دیوی کہہ رہی ہے کہ میں تمہارے کشمیر کا پانی گئو ماتا کا پورا دودھ سمجھ کر غٹا غٹ چڑھا رہی ہوں اور بھارت کا سیاہ دیونئی دہلی کے پیپل کی ٹھونٹھ پر بیٹھا ہوا ہمیں ٹھینگا دکھا رہا ہے کہ جاؤ چاٹو شہد لگا کر سلامتی کونسل کی تجاویز کو۔ گراہم رپورٹ کو سنبھالو، اپنی وزارت خارجہ کے طاق پر ریکارڈ توڑ تقریروں کے پشتارے، اب تو دوتہائی کشمیر پر میرا اور میرے باپ کا حق ہے۔