بسم اﷲ الرحمن الرحیم!
الحمدﷲ رب العالمین والعاقبۃ للمتقین والصلوٰۃ والسلام علیٰ سیدنا و مولانا محمد خاتم الانبیآ والمرسلین وعلیٰ آلہ واصحابہ وازواجہ وذریاتہ اجمعین!
تاریخ اسلام اور ابتدائے فتنہ قادیانیت
دنیا اسی کا نام ہے کہ آنسوئوں کی گود میں مسکراہٹیں پلتی ہیں۔ دنیا انقلاب کی بنا پر قائم ہے۔ جب آفتاب جہاں تاب اپنی تابانی سمیٹ کر پردوں کی اوٹ میں چلا جاتا ہے تو مہتاب کی روشنی ایک نئے انقلاب کی نشان دہی کرتی ہے۔ مہتاب ستاروں کی فوج کے ہمراہ بھی اپنے اقتدار کو دائمی حیثیت نہیں دے سکتا اور ہر صبح طلوع ہوتے وقت ایک نیا احساس لے کر آتی ہے۔ نسیم سحر انقلاب کی پیامبر ہوتی ہے۔ جن سبزہ زاروں میں طائران خوش الحان چہکتے ہیں وہاں زہریلے ناگ بھی لہراتے ہیں۔ ہر بلندی کے بعد نشیب آتا ہے۔ اسی طرح آج سے چودہ سو سال قبل عرب کی سرزمین پر جو برائیوں کی آماجگاہ تھی۔ ظلم وتشدد جہاں کے لوگوں کا پیشہ تھا۔ عالم انسانیت کی فضائے روحانی کا ایک انقلاب عظیم رونما ہوا۔ یہ امت مسلمہ کے ظہور کا پہلا دن تھا۔ یعنی یہ حضرت ختم المرسلین، رحمتہ اللعالمینﷺ کی ولادت باسعادت تھی۔ یہ عرب کی ترقی وعروج کے بانی کی پیدائش نہ تھی۔ یہ محض قوموں کی طاقتوں کا اعلان نہ تھا۔ اس میں صرف نسلوں اور ملکوں کی بزرگی کی دعوت نہ تھی۔ بلکہ یہ قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کی رہائی کی پیدائش تھی۔ یہ تمام کرۂ ارضی کی سعادت کا ظہور تھا۔ یہ تمام نوع انسانی کے شرف واحترام کا قیام تھا۔ یہ انسانوں کی بادشاہتوں، ملتوں کی بڑائیوں اور قوموں کی فتوحات کا دن نہ تھا۔ بلکہ خدا کی ایک اور عالمگیر بادشاہت کے عرش جلال وجبروت کی آخری اور دائمی نمود تھی۔ آفتاب رسالت طلوع ہوچکا تھا۔ اسلامی تاریخ کی داغ بیل ڈالی جاچکی تھی۔ محمدﷺ کی تبلیغ کی بنا پر پورا عرب اسلام کی روحانی گود میں سما چکا تھا۔ محمدﷺ اس دنیا سے رخصت ہوئے تو خلفائے راشدینؓ نے ایک اعلیٰ نظام حکومت مرتب کیا۔ جس کی وجہ سے ایران وروم کی سرکش سلطنتوں کے جھنڈے سرنگوں ہوگئے۔ ظلم وستم کو اس عادلانہ نظام میں سر چھپانے کی کوئی جگہ نہ مل سکی۔ یہاں تک کہ بنو امیہ کے تاجدار ولید بن عبدالملک کے دور میں ہندوستان کی تاریخ نے بھی اچانک پلٹا کھایا۔ ایک نیا آفتاب پردۂ سمیں پر ابھرآیا۔ طائران خوش الحان نے نغمۂ توحید سنایا اور تاریخ عالم کے سب سے کم عمر جرنیل محمدقاسمؒ