چشم حیراں ڈھونڈتی اب اور نظارے کو ہے
آرزو ساحل کی مجھ طوفان کے مارے کو ہے
چھوڑ کر مانند بو، تیرا چمن جاتا ہوں میں
رخصت اے بزم جہاں سوئے وطن جاتا ہوں میں
(علامہ اقبال)
یعنی نبی بننے کا راستہ ڈھونڈ رہا ہوں۔ جو آپ کے پاس نہ ملا ؎
اے میرے خضر ختم کب ہوتی ہے مری طلب
اس کو چلا ہوں ڈھونڈنے جو ابھی ملا نہیں
یوسف موعود
صدیق دیندار چن بسویشور نے چونکہ قادیان میں جا کر غلام احمد قادیانی کے علمی خزانے سے کافی استفادہ کیا تھا۔ جس کی وجہ سے اسرار نبوت آپ پر منکشف ہو گئے تھے۔ اس لئے اب دعوائے نبوت کرنے میں کیا دیر تھی۔ بس حیدرآباد پہنچا تھا کہ دعویٰ کر دیا۔ میں یوسف موعود ہوں۔ مأمور من اﷲ چن بسویشور ہوں اور اپنے دعویٰ کی وضاحت کے لئے ایک کتاب خادم خاتم النبیین کے نام سے لکھ ڈالی۔ جس میں اکثر وبیشتر مرزاغلام احمد قادیانی کے الہام وپیش گوئیوں سے اپنے دعویٰ کو مبرہن کیا ہے۔ آپ بھی چند اقتباسات سن کر قوت دلیل کا اندازہ کر لیں۔
’’اب حق آگیا۔ اس کی طرف حضرت صاحب (مرزاغلام احمد قادیانی) نے اشارہ کیا تھا کہ جب تک کوئی روح القدس سے تائید پاکر کھڑا نہ ہو تم سب مل کر کام کرو اور اس کے بعد اس کی اتباع کرنا، اسی میں نجات ہے۔ اس کام کے لئے اپنی جماعت میں دن رات دعا کرتے رہنے کے لئے کہا تھا۔‘‘
عید منوائیو اے احمدیو تم سب مل کر
منتظر جس کے تھے آج وہ موعود آیا
گذشتہ تین سال میں میاں صاحب کے نام میں نے متعدد خطوط بھیجے اور باربار لکھا کہ دکن کے اولیاء اﷲ (ہندو، سادھو وغیرہ) کی کتب پکار پکار کر کہہ رہی ہیں کہ ایک شخص شمال میں دیر بسنت (اولوالعزم محمود) نامی پیدا ہوگا۔ وشنو (غلام احمد قادیانی) کی گادی پر بیٹھے گا۔