ہم نے مرزاقادیانی کی جھوٹی پیش گوئی کو لکھا اور اس کو مرزاقادیانی کی تحریرات پر پرکھا۔ ان کی اپنی تحریرات سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ جو آدمی اپنے دعوے میں جھوٹا ہو۔ اس کی پیش گوئیاں غلط ثابت ہوتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مرزاقادیانی نے خود کہا کہ میں اپنے دعوے میں جھوٹا ہوں۔ اس بات پر مرزائیوں کو غور کرنا چاہئے اور مرزاقادیانی کی اندھادھند تقلید کر کے ان پر مزید جہنم کا بوجھ مسلط نہ کریں۔ بلکہ جتنا ہے اتنا ہی رہنے دیں اور راہ راست پر آجائیں۔ اس طرح ان کی اپنی آخرت ہی نہیں سنورے گی۔ بلکہ مرزاقادیانی کے لئے بھی سود مند ہوگی۔
مرزاقادیانی کی سچی پیش گوئی
جب فرنگیوں کے ایماء پر مرزاقادیانی نے دعویٰ نبوت کیا تو انہوں نے اپنے لگائے ہوئے اس پودے کو دولت کے بل بوتے پر پروان چڑھانے کی پوری کوشش کی اور مرزاقادیانی کو خوب دولت سے نوازا۔ مرزاقادیانی نے دولت کے سہارے ان لوگوں کو اپنے شکنجے میں جکڑنا شروع کیا جو دولت کے بھوکے ہیں اور اس کے آگے سجدہ ریز ہونا جانتے ہیں۔ لہٰذا مرزاقادیانی نے جب لوگوں کو گمراہ کرنا شروع کیا تو اﷲتعالیٰ نے ’’ہر فرعونے را موسیٰ‘‘ والی سنت کو دہرا کر مرزاقادیانی اور ان کے حواریوں کا سر کچلنے کے لئے بہت سے مسلمانوں کو کھڑا کر دیا۔ انہی میں سے ایک مجاہد مولانا ابوالوفاء ثناء اﷲ صاحب امرتسری بھی تھے۔ آپ نے مرزاقادیانی کے جال کو تار تار کر دیا اور ہر میدان میں مرزاقادیانی اور ان کے حواریوں کو فاش شکستیں دیں اور مرزائیت کا خوب پوسٹ مارٹم کیا۔
جب مرزاقادیانی نے اپنی بے بنیاد عمارت کو گرتا، اپنے گلستان کو اجڑتا، اپنے گھر کو برباد اور اپنی جھوٹی پیشوائی کو تاخت وتاراج ہوتے دیکھا تو مرزاقادیانی نے اپنی روایتی عیاری اور بازاری ہتھکنڈوں کا ثبوت دیتے ہوئے ثالث با الخیر بن کر مولوی ثناء اﷲ صاحب سے مباہلے کا فیصلہ کیا۔ جس کے الفاظ یہ تھے: ’’اگر میں (یعنی مرزاقادیانی) کذاب اور مفتری ہوں، جیسا کہ مولوی ثناء اﷲ صاحب کہتے ہیں تو میں مولوی صاحب کی زندگی میں ہلاک ہو جاؤں گا۔ کیونکہ میں جانتا ہوں کہ مفسد اور کذاب اپنے دشمنوں کی زندگی ہی میں ہلاک ہو جاتے ہیں اور اگر میں سچا ہوا تو مولوی صاحب میری زندگی میں وفات پاجائیں گے۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۳ )