حسب ذیل قطعہ بطور چیلنج اسی ٹائٹل پر بحروف جلی رقم فرمایا ہے:
اینست نشان آسمانی
مثلش بنما اگر توانی
یا صوفی خویش رابروں آر
یا تو بہ بکن زبد گمانی
قارئین کے دلوں پر اس شہادت کا اعتبار جو مرزاقادیانی بٹھانا چاہتے ہیں۔ وہ منقولہ صدر عبارتوں اور قطعہ سے پورے طور پر عیاں ہے۔ قطعہ کا دوسرا مصرعہ جس دعویٰ پر دال ہے۔ وہ مخفی نہیں۔ گویا ’’فاٰتو بسورۃ من مثلہ‘‘ کا جواب لکھا ہے۔ کوئی شخص ان الفاظ کو پڑھ کر یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ شہادت مرزاقادیانی کے خیال میں کوئی معمولی اور محض ضمنی سی شہادت تھی۔ ہمارے خیال میں اور کسی شہادت کی مرزاقادیانی کے خیال میں اتنی وقعت نہ تھی۔ جتنی اس کی، اس لئے کہ اور شہادتیں زیادہ تر عقلی ونقلی ثبوتوں پر مبنی تھیں اور یہ خالص الہام پر جب ایک الہام کی تائید دوسرا الہام کرے تو وہ الہام کس حد تک صحیح اور معتبر نہ ہوگا۔
مرزاقادیانی سے اس سے زیادہ اور کیا بن پڑ سکتی تھی کہ وہ الہام کی تائید میں الہام ہی پیش کرتے۔ اس پر بھی جو نہ مانتے وہ انہیں شقی ازلی کہنے کے ہر طرح مجاز تھے۔ سادہ لوحوں پر اس شہادت سے بڑھ کر اور کسی شہادت کا اثر بھی کم ہوسکتا تھا جہلاء تو پھر شکار ہوئے۔ ایسی باتوں کے۔ کتاب کا نام ہی شہادت الملہمین، رکھ کر اس میں وہ جادو مضمر کر دیا کہ لاکھوں پڑے مسحور ہوں۔
اصل پیش گوئی اور اس کی تشریح، جو مرزاقادیانی کی ہے اس پر تنقید
پروفیسر براؤن کی عبارت ظاہر کرتی ہے کہ شاہ نعمت اﷲ صاحب کے دیوان کو مطالعہ کرنے والا اس نتیجہ پر پہنچتا ہے اور ان کی زندگی بھی ساری اسی رنگ کی تھی کہ وہ ہمیشہ تصوف میں غرقاب رہتے۔ اسی مضمون پر عام رسالے لکھتے اور مسئلہ وحدت الوجود کی تعلیم دیتے۔ اس سے الگ وہ عام طور پر بطور پیش گوئیوں کے کچھ کلام کہتے۔ جس کا اشارہ فتنہ آخرالزمان اور ظہور مہدی کی طرف ہوتا۔ ان دونوں مضامین کی طرف ان کے کلام میں کئی کنائے ہیں اور بعض جگہ صاف بیانیوں سے بھی کام لیا ہے۔ اس قصیدہ میں جو ہمارا مبحث فیہ ہے۔ انہوں نے ظہور مہدی اور اس سے قبل فتنہ آخرالزمان کے متعلق اپنے تمام مکاشفات کو یکجا اکٹھا کر کے بیان فرمادیا ہے۔ آپ ۷۳۰ھ میں پیدا ہوئے اور ۸۳۴ھ میں انتقال فرمایا۔ قصیدہ کی تصنیف کا سال عیاں طور پر کہیں نہیں دیا گیا۔ تاہم یہ واضح ہے کہ قصیدہ اسی زمانہ کا ہوسکتا ہے۔ جب آپ صاحب مکاشفہ ہوچکے ہوئے تھے۔ یہ زمانہ کم وبیش ۸۰۰ھ کے قریب ہوگا۔ قصیدہ کے لکھنے اور مکاشفات کے ظاہر کرنے میں جو اصول مدنظر رکھا گیا ہے۔ وہ صرف یہی ہوسکتا ہے کہ سب سے مقدم ظہور مہدی کی تاریخ