کے خوف سے کتنی معصیات سے ہم بچے رہتے ہیں۔ وہ قیامت یہ ہے جس میں سے ہم گذر رہے ہیں۔ اس میں نہ جنت ہے نہ دوزخ۔
رحمتہ اللعالمین
سارے خطابات پیر صاحب نے خود اپنے آپ کو دے دیئے تھے۔ لیکن وہ خود کو رحمتہ اللعالمین کہلانے سے بھول گیا۔ اس لئے مرید نے یہ کسر بھی پوری کر دی۔ فرماتے ہیں: ’’پہلی دفعہ آپ مخلوق پر رحم فرما کر رحمتہ اللعالمین بن کر تشریف لائے اور مخلوق کو ہر بلا سے بچایا۔ اب دوبارہ آپ ہی تشریف لائے ہیں۔‘‘ (شمس الضحیٰ ص۷۴)
آپ مخلوق کے لئے رحمت کیا لائے۔ ہاں کفر وضلالت، الحاد وزندقہ اور بے دینی کے امڈتے ہوئے سیلاب لاکر مخلوق خدا کو گمراہ بنانے کا شیطانی کردار ادا کر دیا اور یہ کشت نامراد بوکر چلے گئے۔
شفاعت اور قیامت کا مالک
ستم ظریفی کی انتہاء کر دی کہ شفاعت کے ٹھیکہ دار بن گئے اور اس پر طرہ یہ کہ یہی دھن پتی مہاراج چن بسویشور قیامت کے مالک بھی بن گئے۔ لکھتے ہیں: ’’قرآن کریم اور احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ قیامت کے روز اﷲ قاضی کی حیثیت سے آئے گا اور سزا وجزا کے فیصلے سنائے گا۔ مسلمانوں کا ایمان ہے کہ بروز حشر حضور اکرمﷺ امت کی شفاعت فرمائیں گے۔ یہ بعثت ثانی کی طرف اشارہ ہے۔ اسلام میں ختم نبوت کا مسئلہ مسلم ہے۔ اس لئے کوئی شخص حضور کے بعد دعویٰ نبوت نہیں کر سکتا۔ اس لئے امت کی شفاعت آپ ہی کریں گے۔ وہ بہ لباس دیگر ہوگی۔ وہی بعثت بروز محمد کہلائے گی۔ وہ قیامت کے مالک بن کرآئیں گے۔ وہ وجود حضرت مولانا صدیق دیندار چن بسویشور صاحب کا ہے۔‘‘ (شمس الضحیٰ ص۷۶)
شفاعت کا مسئلہ تو الگ ہے۔ یہاں تو یہ فرمایا جارہا ہے کہ آپ قیامت کے مالک بن کر آئیں گے۔ اس میں تو کسی مسلمان کو شک نہیں کہ قیامت کے مالک اﷲتعالیٰ ہیں۔ اب اگر چن بسویشور قیامت کا مالک ہے تو معلوم ہوا کہ وہ خود خدا ہے اور اس کا چیلا عبدالغنی مصنف شمس الضحیٰ اس کو خدا ہونے کا سرٹیفکیٹ دے رہا ہے۔ یہ مغالطہ بھی قابل غور ہے کہ اسلام میں ختم نبوت کا مسئلہ مسلم ہے۔ عجیب امر ہے کہ ختم نبوت مسلم ہے۔ اس لئے اب بروز نبی کی حیثیت سے آجایا کرو۔ یا خدا بن کر آیا کرو۔