کہ اگر خداتعالیٰ چاہے تو دوبارہ تیار کی جائے۔ لیکن چونکہ گھر ایام امید ہونے کا کچھ گمان ہے۔ جس کا میں نے ذکر بھی کیا تھا۔ ابھی تک وہ گمان پختہ ہوتا جاتا ہے۔ خداتعالیٰ اس کو راست کرے اس جہت سے جلد تیار کرنے کی چنداں ضرورت میں نہیں دیکھتا۔‘‘
(مکتوبات احمدیہ ج۵ نمبر۲ ص۱۳،۱۴، خط نمبر۱۵)
الہامات مرزا
قرآن مجید میں ایک اصول بیان کیاگیا ہے۔ ’’وما ارسلناا من رسول الا بلسان قومہ‘‘ یعنی جو نبی بھیجا گیا وہ اپنی قوم کی زبان میں۔ ابتدائے آفرنیش سے یہی دستور چلا آیا ہے کہ خدا کے نبی اپنی ہی مادری زبان میں خدا کا کلام لوگوں کو سناتے رہے اور کبھی کسی غیرقوم کی زبان میں ان پر خدا کا الہام نہیں ہوا اور اس میں کوئی ایسی نظیر نہیں ملتی کہ ملہم پر اس زبان میں وحی نازل ہوئی ہو۔ جس کو وہ خود نہ سمجھتا ہو۔ چنانچہ مرزاقادیانی خود فرماتے ہیں: ’’یہ بالکل غیرمعقول اور بیہودہ امر ہے کہ انسان کی اصل زبان تو کوئی اور ہو اور الہام اس کو کسی اور زبان میں ہو جس کو وہ سمجھ بھی نہیں سکتا۔ کیونکہ اس میں تکلیف مالایطاق ہے اور ایسے الہام سے فائدہ کیا ہوا؟ جو انسانی سمجھ سے بالاتر ہے۔‘‘ (چشمۂ معرفت ص۲۰۹، خزائن ج۲۳ ص۲۱۸)
حضرات! مگر مرزاقادیانی کچھ ایسے مظہر العجائب تھے کہ ان پر عربی میں الہام ہوئے۔ فارسی میں ہوئے۔ عبرانی میں ہوئے، اردو میں ہوئے۔ حتیٰ کہ انگریزی میں ہوئے اور نہایت دلچسپ ہوئے اور نہ ہوئے تو ایک اپنی غریب مادری زبان پنجابی میں نہ ہوئے۔ دوسری جگہ خود لکھتے ہیں: ’’زیادہ تر تعجب کی بات یہ ہے کہ بعض الہامات مجھے ان زبانوں میں بھی ہوتے ہیں۔ جن سے مجھے کچھ بھی واقفیت نہیں۔ جیسے انگریزی یا سنسکرت یا عبرانی وغیرہ۔‘‘
(نزول المسیح ص۵۷، خزائن ج۱۸ ص۴۳۰)
اب ہم بطور نمونہ چند الہام درج کرتے ہیں۔ جن سے معلوم ہو جائے گا کہ مرزاقادیانی ان کو خود نہیں سمجھ سکے۔ دوسروں کو خاک سمجھاتے۔
’’ایلی ایلی لما سبقتنی ایلی اوس میرے خدا، اے میرے خدا، مجھے کیوں چھوڑ دیا۔ آخری فقرہ اس الہام کا یعنی ایلی اوس بباعث ورود مشتبہ رہا ہے اور نہ ان کے کچھ معنی کھلے ہیں۔‘‘ (البشریٰ ج اوّل ص۳۶)