چن بسویشور صاحب یہاں بھی ایسا ہی کاروبار چلانا چاہتے تھے۔ چنانچہ خود لکھتے ہیں کہ یہاں ایک مہینہ بلکہ ہفتہ میں لوگ اتنے مدارج طے کرتے ہیں کہ نبی بنتے ہیں۔ چنانچہ بہت سارے ایسے بالواسطہ انبیاء بنا بھی دئیے۔ جن میں سے ایک ابوالکلام عبدالغنی صاحب شمس الضحیٰ بھی ہیں۔ جن کی کتاب پر بسویشور کی تقریظ بھی ہے۔ ایسے چکر بازوں سے متعلق کسی نے کہا ہے ؎
تعجب ہے کہ بے بوالفضل مردک
فرشتہ نے نہ پائی راہ شہ تک
کتاب اتری تو ایسی لغو و معضل
ہر ایک آیت ہے جس کی محض مہمل
اﷲتعالیٰ اپنے بندوں کو نفس وشیطان کی چالوں سے محفوظ رکھیں۔ ورنہ شیطان کے جال اتنے پھیلے ہوئے ہیں کہ حفاظت مشکل ہے۔
۳۱۸قلب انبیاء
دیندار انجمن کے بانی کی مجموعہ چالبازیوں میں ایک ۳۱۸ کا چکر بھی ہے۔ اسے غور سے پڑھئیے: ’’حدیثوں میں بشارت ہے کہ ہر دور نسل انسانی مسلم میں تین سو اٹھارہ قلب انبیاء ماسبق کے رہتے ہیں۔ قرن اولیٰ میں ان کا مجموعہ تھا۔ فیج اعوج کے زمانہ میں بوجہ فرقہ بازی قلوب منتشر تھے۔ قرن آخری چونکہ حشر کا زمانہ ہے۔ اس وجہ سے وہ تمام قلوب انبیاء ماسبق آخری امین کی صورت میں خانقاہ سرور عالم حیدرآباد دکن میں جمع ہوئے ہیں۔ کیونکہ ان کے سردار صدیق (چن بسویشور) کی پیدائش کا مقام اس ریاست میں ہے۔ یہ شہر جامع جمیع کمالات ہے اور جلال وجمال کا کافی سامان یہیں ہے۔‘‘ (دعوۃ الیٰ اﷲ ص۴)
مقام پیدائش کا نام ظاہر نہ کرنے میں ضرور کوئی مصلحت ہوگی۔ لیکن دیندار انجمن والے ۳۱۸قلب انبیاء ماسبق فیج اعوج اور ان (انبیائ) کے سردار صدیق کے مطالب کی وضاحت کریں۔ کیا دیندار انجمن کے بکواس بکنے والے مبلغین کے لئے اب بھی یہ کہنے کی کوئی گنجائش باقی ہے کہ چن بسویشور نے نبوت کا دعویٰ نہیں کیا۔ نبوت کا دعویٰ نہیں کیا تو انبیاء کے سردار کیسے بنے؟ ان کے کفر میں تو کوئی شک ہی نہیں۔ لیکن یہ دیندار انجمن والوں کی صریح منافقت بھی ہے کہ اپنی کتابوں اور دلوں میں کیا چھپائے ہوئے ہیں اور تبلیغی جلسوں میں عوام کے سامنے کیا کچھ ظاہر کیا جارہا ہے۔ عوام تو ایسے منافقوں کو بس یہی جواب دیا کریں کہ ؎