بھی اس کی اتنی طولانی کہ ختم ہو تو حشر ہی پر جا ہو۔ ساتھ ہی ادھر فطرت بشر میں بشریت کے سب تقاضے میں سے کسلان وغفلت پیدا ہوتے ہیں اور انسان اپنے فرائض سے غافل وکوتاہ پڑ جاتا ہے، معلوم تھے۔ اس لئے جن جن مواقع پر تقدیر میں یہ تھا کہ قاصدان توحید سستی کی وجہ سے اپنی رفتاروں کو ڈھیلا کردیں گے۔ ان کی طرف بھی خاص اشارے کر دئیے اور بتلادیا کہ جب عوام میں یہ کمزوریاں ایک خاص حد تک رونما ہو جایا کریں گی۔ ہمارے نائب خاص جن کا کام ایجاد نہیں بلکہ تجدید ہوا کرے گا۔ دفعتہ نمودار ہوا کریں گے۔ ہمارے دئیے ہوئے مگر بھولے ہوئے سبق از سر نو پڑھا کر لوگوں کو سعی عمل پر کمربستہ کر دیا کریں گے۔ غفلتیں پھر ایک خاص عرصہ کے لئے اڑ جایا کریں گی۔ ہمتوں میں برکت پیدا ہو جایا کرے گی۔ فراموش کردہ پیمانوں کی اہمیت آشکارا ہوا کرے گی اور ملامت کے تازیانے سمندر عمل کو گرم سبک سیری کیا کریں گے۔ روح القدس کس فیض عام پھر دکھا دیا کرے گا۔ کہ ؎دیگراں ہم بکنند آنچہ مسیحا می کرد
فداک روحی یا محمد ؎
برز مینے کہ نشان کف پائے تو بود
سالہا سجدۂ صاحب نظراں خواہد بود
مدعیان مجددیت ومہدویت
مسیح باش زاعجاز لا فہا میزن
میاں دعویٰ وحجت ہزار فرسنگ است
رسول عربیﷺ نے ایسے ارباب ارشاد کے ظہور کا وقت جن کا ذکر اوپر کیاگیا ہے۔ عام طور پر ہر سوسال کے بعد بتایا اور ان کو مجددین دین کے نام سے تعبیر کیا۔ ان کے متعلق اس زبان اطہر سے جو وارد ہوئے وہ یہ الفاظ ہیں: ’’ان اﷲ یبعث لہٰذہ الامۃ علیٰ راس کل مائۃ سنۃ من یجدد لہا دینہا‘‘
ان الفاظ سے یہ مترشح نہیں ہوتا کہ جو شخص تجدید دین پر مامور ہوگا۔ وہ ازخود مدعی بھی ضرور ہوگا۔ کوئی حقیقت اپنے پاس ہو تو اس کا دعویٰ اگر مذموم نہیں تو عبث وفضول ضرور ہے۔ دعوؤں کی خاص طور پر ضرورت جب بھی ہوتی ہے باطل مدعیوں کو ہوئی ہے۔ ورنہ یہ کون جانتا کہ مشک آنست کہ خود ببوید نہ کہ عطار بگوید۔