قریباً تیس برس کی جدوجہد سے مرزائیت دنیا بھر میں اس قدر ننگی ہوچکی ہے کہ اس کے جسم کی تمام بیماریاں ایک ایک کر کے گنی جاسکتی ہیں۔ گو اس نے اسلام کا ایک عضو ہی نہیں بلکہ خود اسلام بننے کی کوشش کی۔ لیکن اسلام کے محافظ ڈاکٹروں نے اس گندے جسم سے اسلام ایسے پاک اور ستھرے مذہب کو ہمیشہ محفوظ رکھا۔
باوجود اس کے کہ ارض و سماوات کے درمیان کی ہر شے آج مرزائیت کو اسلام کے لئے انسانیت کے لئے، شرافت کے لئے اور پاکستان کے لئے ضرر رساں خیال کرتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں ہنوز ایسے لوگ بھی ہیں جو وقت کی اس آواز کو نہ خود سنتے ہیں اور نہ دوسروں کو سننے دیتے ہیں۔
مسلمانوں میں ہی نہیں بلکہ مرزائیوں میں بھی نوے فیصدی ایسے لوگ موجود ہیں جنہیں آج تک مرزاغلام احمد قادیانی کی تصانیف کا مطالعہ کرنے کا موقعہ نہیں ملا۔ وہ سفید چادریں ہیں۔ ان کے والدین چونکہ مذہباً مرزائی ہیں۔ لہٰذا جو رنگ ان پر چڑھا دیا گیا۔ وہ اسی رنگ میں رنگے گئے۔ میرا دعویٰ ہے کہ مرزاغلام احمد قادیانی کی کتابوں کا مطالعہ کرنے کے بعد ایک آدمی دہریہ تو ہوسکتا ہے۔ لیکن مرزائی نہیں رہ سکتا۔
زیرنظر کتاب کے دو رخ ہیں۔ پہلا رخ اس کے چال چلن کی رنگین اور گندی تصویر ہے۔ جسے اس کے متعلقین اور خود مرزاغلام احمد قادیانی نے واضح اور صاف لفظوں میں اپنی کتابوں میں بیان کیا ہے۔ جس کا نتیجہ ہے کہ اس کے بعد آنے والے بھی اسی راہ پر چلے۔
دوسرا رخ اس کے دعویٰ سے متعلق ہے۔ دونوں رخ دیکھنے اور مطالعہ کرنے کے بعد آدمی کس نتیجہ پر پہنچتا ہے۔ اس کے لئے راستہ بند نہیںکیاگیا۔
میں نے یہ کتاب اسی اصول کے تحت ترتیب دی ہے۔ میں ہر آدمی کو دعوت دیتا ہوں کہ مرزاغلام احمد قادیانی کی تحریر کا مطالعہ کرنے کے بعد مجھ کو جواب دے کہ واقعی مرزائیت کوئی مذہب ہے؟ جانباز مرزا!
تصویر کا پہلا رخ
’’مجھے کئی سال سے ذیابیطس کی بیماری ہے۔ پندرہ بیس مرتبہ پیشاب آتا ہے اور بعض دفعہ سو سو دفعہ ایک ایک دن میں پیشاب آتا ہے اور بوجہ اس کے کہ پیشاب میں شکر سے کبھی کبھی خارش کا عارضہ بھی ہوجاتا ہے۔ اکثر پیشاب سے بہت ضعف تک نوبت پہنچتی ہے۔ ایک دفعہ مجھے