کے لئے چن بسویشور آئے گا۔‘‘ (دعوۃ الیٰ اﷲ ص۵۴)
عقائد کی یہ اصلاح کی کہ ان کے گرد غلام احمد کو آخری فرقہ کا سردار کہلاؤ۔ اپنے آپ کو آخرین کا سردار اور کوئی اصلاح سمجھ میں نہیں آتی۔ اس لئے کہ چن بسویشور تو خود اپنی اصلاح کے لئے خلیفۂ قادیان میاں محمود سے بیعت ہوا تھا۔ البتہ یہ ہوسکتا ہے کہ ان لوگوں کے ہاں مرید پیر کی اصلاح کرتا ہو۔ نہ کہ پیر مرید کی۔
لنگایت؟
لیجئے! یک نہ شد دو شد۔ پہلے تو صرف احمدیوں کے موعود تھے۔ اب لنگایت کے بھی موعود ہونے کی تیاریاں زور شور سے جاری ہیں۔ لکھتے ہیں: ’’اس وقت میں اپنے موعود کی منتظر جماعتوں یعنی لنگایت اور احمدیوں میں پوری طاقت سے پیش ہورہا ہوں۔ وہ بھی ایک بشارت کی بناء پر ہے۔ اس میں کامیابی دکھائی گئی ہے۔ اس میں یہ حقیقت نظر آتی ہے کہ لنگایت ہندوؤں میں اور احمدی مسلمانوں میں یہ دونوں ہر حیثیت سے زبردست جماعتیں ہیں۔ ان کی توجہ بڑے زوروں سے خصوصی ہندوستان کے مختلف مذہبوں کی طرف ہونی چاہئے۔‘‘ (دعوۃ الیٰ اﷲ ص۴۵)
بہت خوب، آپ لنگایتوں کے اوتار ہیں۔ یہ راز اب محقق ہوکر کھل گیا کہ آپ ہندوؤں میں سے ہیں۔ اچھا ہے، مسلمان جس مغالطہ میں تھے جناب نے اسے رفع کر دیا۔
مسیح گرو اور اس کی خانقاہ
حضرات قارئین! پیچھے مذکور تفاصیل کو خوب ذہن نشین کرتے ہوئے آگے بڑھیں۔ اب سے کچھ مزید انکشافات ہونے والے ہیں۔ آج کل کے حافظے کمزور پڑگئے ہیں۔ اس لئے مختصراً پچھلا سبق دھرا کر آگے چلتے ہیں۔ صدیق دیندار چن بسویشور پہلے عام آدمی تھے۔ پھر قادیانی مغضوب کے پاس چلے گئے۔ پھر خلیفہ قادیان سے بیعت ہوئے۔ پھر مہدی آخرالزمان، پھر یوسف موعود، پھر کئی انبیاء کے مثیل، بروز محمد اور عین محمدﷺ یہ تمام مدارج بآسانی طے کرنے کے بعد مظہر خدا، مالک حشر، انبیاء کے حاکم، قاضی حشران خدائی صفات کے مالک ہوگئے۔ حتیٰ کہ یہ شیخ چلی خود خدا بن گیا۔
اچھا جناب عالیٰ! یہ سب عہدے مبارک ہوں۔ مگر کیا کسی ہوس کے بندے اور حب جاہ کے بھوکے کا پیٹ صرف ان دعاوی اور ان کے برابر کے دیگر دعوؤں سے بھر سکتا ہے؟ ہر گز نہیں۔ چن بسویشور خدا تو بن ہی گیا تھا۔ اب رسولوں کے بھیجنے میںکیا دیر لگتی اور ویسے بھی یہ خدا کی ذمہ داری ہے۔ چن بسویشور خدا بننے کے باوجود رسولوں کے بھیجنے کا بندوبست نہ کرے تو مخلوق