سردار دو جہاںﷺ نے اپنے کو قاضی حشر نہیں فرمایا: ’’سید ولد آدم‘‘ تو فرمایا ہے لیکن حاکم الانبیاء نہیں فرمایا۔ اس لئے یہاں بروز محمد کی جو تشریح کی ہے۔ وہ ایسا بروز ہے۔ جو حضورﷺ سے بھی قدرومنزلت میں بڑھا ہوا ہے۔ بلکہ قاضی حشر یا مالک حشر تو صفات خداوندی ہیں۔ اس لئے بلامبالغہ بروز محمد کا مطلب یہ ہوگاکہ وہ خدا جو صفات محمد یہ کے ساتھ بشکل ہندو… چن بسویشور آیا ہے۔ وہ یہ بندہ ناچیز ہے ؎
خرد کو جنوں کہہ دیا جنوں کو خرد
جو چاہے تیرا حسن کرشمہ ساز کرے
مذہب چن بسویشور میں اس کے اندر کوئی استحالہ نہیں۔ اس لئے کہ ان کے نزدیک مسلمان کا درجہ نبی کے برابر ہے اور جو جامع الانبیاء ہو وہ ظاہر ہے کہ کم ازکم خدا تو ہوگا ہی۔ مسلمان اور نبی کا درجہ برابر ہے۔ اس سلسلے میں خود چن بسویشور کے الفاظ سن لیجئے ؎
نہیں کوئی مسلم ہے نبیوں سے کچھ کم
(مہر نبوت ص۶۱)
یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ایک نبی ہونے کا دعویٰ نہیں کیا۔ ورنہ عام مسلمانوں کے برابر ہوتا۔ العجب ثم العجب!
بسویشور کے دربار میں نبیوں کا اجتماع
ہوس نے کر دیاہے ٹکڑے ٹکڑے نوع انسان کو
حد ہوگئی ہوس جاہ کی، مامور وقت سے لے کر مہدی آخرالزمان اور یوسف موعود ودیگر خیالی مراتب تک پہنچنے کے بعد اب بھی ہوس پوری نہیں ہوئی تو بکنے لگا کہ تمام انبیاء میرے دربار میں حاضری دیتے ہیں۔
فرماتے ہیں: ’’بروز محمد سے مطلب بعثت ثانی میں ’’آخرین منہم‘‘ کے مالک اور آقا ہیں… یہی وقت اجتماع انبیاء کا ہوگا۔ جب کل انبیاء جمع رہیں گے ان پر حاکم ایک امتی فنافی الرسول ہوگا۔ جو بروز محمد کہلائے گا۔‘‘ (مہر نبوت ص۴۴)
جب خود بروز محمد ہوگئے محمدﷺ کی بعثت ثانی بشکل جن بسویشور ہوگئی۔ بیت المقدس کی بجائے حیدرآباد دکن میں انبیاء کرام جمع ہوگئے۔ حاکم بسویشور صاحب مقرر ہوگئے۔ اب آسمان سے نزول قرآن کے خیالی تصور میں کیا دیر لگتی، اس لئے ارشاد ہے: ’’علم قرآن جب خلیج