خارجہ حکمت عملی
’’پارلیمنٹری طرز حکومت میں غالباً انوکھی بات یہ ہے کہ پاکستان پارلیمنٹ کے اراکین کو تین سال تک وزیرخارجہ کے خیالات سننے اور ان کی موجودگی میں خارجہ حکمت عملی پر بحث کرنے کا شرف حاصل نہ ہوسکا۔ نائب یا قائم مقام وزیرخارجہ ان کی طرف سے وکالت کرتے رہے اور خود وزیر خارجہ یورپ یا امریکہ میں مقیم رہے۔ دوسرے ممالک میں پاکستان کی ترجمانی اور اس کی تشہیر کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ لیکن تقریباً ہر ملک میں پاکستانی سفیر اور اتحادی قوموں میں پاکستان کے مستقل اور متبادل مندوب موجود ہے۔ جن کے تقرر کا واحد مقصد یہ ہے کہ ہر جگہ پاکستانی مؤقف کی ترجمانی ہو سکے۔ ان کے ذریعے وزیرخارجہ پاکستان میں رہ کر بھی وہی کام سرانجام دے سکتے ہیں۔ جن کے لئے وہ طویل مسافت کی زحمت اٹھاتے ہیں۔ ملک میں ان کی موجودگی اس لئے بھی ضروری ہے کہ وہ پارلیمنٹ کے اراکین اور عوام کے خیالات وجذبات سے براہ راست آگاہ ہوسکتے ہیں۔ لیکن ملک سے دوری کی صورت میں وہ اس رعایت سے محروم رہتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ خارجہ حکمت عملی بین الاقوامی صورت حال کی روشنی میں تیار کی جاتی ہے۔ لیکن کسی جمہوری ملک کا وزیرخارجہ اس معاملے میں اپنے عوام کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔ کیونکہ وزیرخارجہ کسی مسئلے پر ذاتی رائے کا اظہار نہیں کرتا۔ بلکہ اس کے الفاظ پوری قوم کے نظریات کہلاتے ہیں۔ اس لئے عوام اور وزیرخارجہ کے درمیان براہ راست تعلق انتہائی ضروری ہے۔ شاید اسی قرب کا فیضان ہے کہ ہمارے وزیرخارجہ نے اینگلو مصری تنازعہ کے بارے پہلی بار ارشاد فرمایا ہے کہ پاکستان اینگلو مصری تنازعہ میں ایسے سمجھوتے کا حامی ہے جو مصری عوام کے لئے تسلی بخش ہو۔ ورنہ اس سے پہلے وہ اسی تنازعہ کے بارے میں ہمیشہ پاکستان کی غیرجانبداری پر زور دیتے رہے۔ اس پر پاکستان کے عوام اور بیشتر اخبارات زبردست احتجاج کرچکے ہیں۔ کیونکہ ظالم ومظلوم کے درمیان غیرجانبداری ہمیشہ ظالم کے حق میں مفید رہتی ہے۔ اسی طرح انہوں نے ایران کے بارے میں فرمایا ہے کہ: ’’ہم نے ایران کے اس حق کو منوانے کی کوشش کی کہ وہ تیل کی صنعت کو قومی ملکیت قرار دے سکتا ہے۔‘‘ وزیر خارجہ کے نظریات میں یہ تبدیلی بیحد امید افزاء ہے۔ کیونکہ اس سے پہلے انہوں نے اینگلو ایرانی تنازعہ میں عالمی بنک کی ثالثی کی تجویز پیش کر کے اپنے تازہ ارشاد کی ترجمانی نہیں کی۔ کیونکہ قومی ملکیت کا حق تسلیم کرنے کے بعد ثالثی کی گنجائش نہیں رہتی اور پھر عالمی بنک کی ثالثی جو بالواسطہ امریکہ اور برطانیہ کی ثالثی کا درجہ رکھتی۔ کسی صورت