بیان کرنے والا تھک جاتا ہے۔ مگر ان لغویات کا عشر عشیر بھی نہیں کہہ پاتا۔ لیکن لتنذر قوماً لدّا کی جو تفسیر کی ہے۔ وہ تو دریائے معرفت ہے۔ خاص کر اس پر جو عبارت فٹ کر کے اس آیت کی وضاحت کی ہے۔ وہ تو بے نظیر ہے۔ جلدی سے سن لیجئے۔ ایسی بے بہا نعمت اور کہیں سے نہیں ملنے کی۔
’’وہ اس خانقاہ میں کیسے آسکتے ہیں۔ جن کے سینے میں قرآن پڑھنے کا جذبہ نہ ہو۔ مبارک ہیں وہ جنہوں نے آسان زبان میں یعنی صدیق کی زبان سے قرآن کریم کے رموز سیکھے۔ صدیق کی زبان دراصل محمدؐ کی زبان ہے کہ جس سے ہم پر قرآن نازل ہوا۔ قرآن کریم نے محمدؐ کی زبان سے پڑھنے کی قید لگائی ہے۔ ’’فانما یسرنہ بلسانک‘‘ اور آگے ہے ’’لتنذر قوماً لدّا‘‘ یعنی آپ آخر زمانے میں قرآن آسان کرنے کے لئے تشریف لائیں گے۔‘‘
(شمس الضحیٰ ص۴۲)
مصنف کو اختلاط کا مرض ہے۔ صدیق کی زبان سے جو کتاب تم پر آسان کی گئی وہ قرآن نہیں ہندوؤں کی وید ہے۔ جسے تونادانی سے قرآن سمجھا ہے۔ ارے جس نے قرآن دیکھا ہو وہی بیان کرے۔ اپنے گرو سے پڑھ کر تو آئے وید اور تفسیر کرنے بیٹھے قرآن کی ؎
صورت لیلیٰ نہ دیکھی پڑھ لیا دیوان قیس
شاعری ان کو نہیں آئی زباں داں ہو گئے
تبلیغ وہجرت حرام
کتاب شمس الضحیٰ کے دیباچہ میں غازی عبدالغنی لکھتا ہے: ’’اب ہم صاف کہہ دیتے ہیں کہ ہمارا ماضی موعودہ اور بشارتوں کی بناء پر گذر گیا۔ مستقبل بھی موعودہ ہے وہ بھی گذر جائے گا۔ آئندہ اس قسم کی تبلیغ، ہجرت اور غزوات تیرہ سو سال تک نہیں ہوںگے۔‘‘ (دیباچہ شمس الضحیٰ)
جہاد کی حرمت کا حکم تو ان کے گرو غلام احمد قادیانی پہلے سے کر چکے تھے۔ اب چیلے نے آکر تبلیغ اور ہجرت پر بھی بندش لگادی۔ مگر برعکس نہند نام زنگی کافور کے مطابق غازی کہلاتے ہیں۔ حضرت بجا فرماتے ہیں۔ جس تبلیغ کے لئے دیندار صاحب تشریف نہ لائیں کسی کو کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ آکر تبلیغ شروع کر دے۔ یہ میراث تو انہی کو ’’ابا عن جد‘‘ ملی ہوئی ہے۔ اس پر دوسروں کی دست اندازی جائز نہیں۔
گھن چکر
مسلمانو! کلیجہ تھام کر گھن چکر کے معنی سمجھ لو اور پھر دیکھو چن بسویشور صاحب کس کو گھن