دونوں لحاظ سے قادیانی ایک جدا سیاسی ومذہبی فرقہ ہے۔ جس کے پیش نظر اپنا علیحدہ نصب العین اور مقاصد ہیں۔ اپنے باربار دہرائے گئے دعوؤں کے باوجود ان کا اسلام سے کوئی واسطہ نہیں۔ ان کے مسلک اور اسلام میں کوئی قدر مشترک نہیں۔ البتہ اپنے سیاسی مقاصد کی تکمیل کے لئے وہ اسلام کا نام لے لے کر فائدہ ضرور اٹھاتے رہے ہیں۔
علامہ اقبالؒ نے ان کا کتنا صحیح تجزیہ پیش کیا ہے: ’’ان کی جدید تاویلیں محض اس غرض سے ہیں کہ ان کا شمار حلقہ اسلام میں ہو، تاکہ انہیں سیاسی فوائد پہنچ سکیں۔‘‘ (حرف اقبال ص۱۳۷)
قادیانیت اور پاکستان
زیر نظر سطور سے یہ حقیقت منکشف ہو جائے گی کہ قادیانیت دراصل ایک سیاسی تحریک ہے۔ جس نے سادہ لوح مسلمانوں کو اپنے دام فریب میں مبتلا کرنے کی خاطر اسلام کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے۔ چنانچہ سیاسی مصلحتوں کے پیش نظر اس نے ہمیشہ تقریباً ہر مسئلہ میں ملت اسلامیہ کے خلاف لائحہ عمل اختیار کیا۔ جب آزادی کے متوالے برطانوی استعمار کے خلاف برسرپیکار تھے اور غاصب حکمرانوں کو وطن عزیز سے نکالنے کے لئے قید وبند کی صعوبتیں جھیل رہے تھے۔ داستان دارورسن دھرائی جارہی تھی۔ اسلامیان ہند عروس آزادی سے ہم کنار ہونے کو بے چین تھے۔ قومی نصب العین بن چکا تھا۔ امت محمدیہ غلامی کے گھٹاٹوپ اندھیروں سے نکل کر آزاد مملکت کی آزاد فضاؤں میں سانس لینے کے لئے جادہ پیما تھی۔ مگر مرزائی تھے کہ اس کی راہ میں سنگ گراں بن رہے تھے۔ دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت روئے زمین کے نقشہ پر ابھرنے کے لئے مضطرب تھی۔ لیکن قادیانی اس سلطنت کے وجود ہی کے خلاف تھے۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ انگریزوں کا یہ خود کاشتہ پودا انہیں کے زیرسایہ پنپ سکتا تھا۔ لہٰذا ۱۹۴۰ء میں قرارداد پاکستان کی منظوری پر چوہدری ظفر اﷲ قادیانی نے پریس کو بیان دیتے ہوئے کہا: ’’جہان تک ہمارا (قادیانی بحیثیت جماعت) تعلق ہے۔ ہم اسے محض ایک باطل خیال اور ناقابل عمل حل تصور کرتے ہیں۔‘‘
قادیانیوں کے خلیفہ ثانی مرزامحمود احمد کا بیان بھی ملاحظہ فرمائیں: ’’انگلستان سے علیحدگی نہ صرف ناممکن ہے۔ بلکہ منشاء خداوندی کے بھی خلاف ہے۔‘‘
(ہندوستانی مسئلہ کے حل کے لئے چند تجاویز ص۴۱)
ناظرین! منشاء خداوندی کے الفاظ پر غور فرمائیں کہ کس طرح مرزامحمود احمد اپنے حامیوںکو تحریک آزادی سے علیحدہ رکھنے کے لئے اس ترکیب کو اختراع کیا۔ نیز جب نظریہ