دل نفس کا تابع غفلت میں دنیا کی حقیقت کیا جانے
امڈے ہیں فریب امیدوں کے طوفاں میں بپا ارمانوں کے
تھی عقل زباں پر اے اکبر اور عشق پہ رکھی ہم نے نظر
ممتاز رہے ہشیاروں میں سرخیل رہے دیوانوں کے
یوسف موعود ہونے کا دعویٰ ایک اور روپ میں
خدا کرے ذیل کا دعویٰ بھی آپ کی سمجھ میں آجائے۔ سنئے اور سردھنئے!
’’یوں تو جلال کے لحاظ سے موسیٰ بھی ہوں اور داؤد علیہ السلام بھی، مسیح موعود کی عبارت میں ان دونوں کا نام کیوں نہیں آیا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ یوسف مصر کے بادشاہ تھے۔ وہ جس قوم پر حکومت کرتے تھے۔ وہ عربی النسل قوم تھی۔ قبل ظہور اسلام دو ہزار سال کے اندر اندر وہ تمام قوم ہندوستان کے جنوبی علاقے میں پہنچ گئی تھی… یہ بچھڑے کے پجاری اور شرک پر قائم رہے۔ ان میں ایک رسول کی بشارت چلی آرہی تھی۔ جس کو شنمکھ اوتار کہتے ہیں۔ شنمکھ کے اصلی معنی نفس امارہ کا مقابلہ کرنے والے کے ہوتے ہیں۔ درحقیقت یہ یوسف کا تعریفی نام ہے۔ قوم لنگایت میں شنمکھ کا مجھ سے پیشتر ۲۷دفعہ آنا مانا جاتا ہے اور یہ آخری ظہور ہے۔ آج سے آٹھ سوسال پیشتر اولیاء اﷲ (ہندو سادھو) نے اس کو دیندار چن بسویشور کے نام سے موسوم کیا ہے۔‘‘
(دعوۃ الیٰ اﷲ ص۲۸)
قارئین حضرات! کیا سمجھے؟ حضرت یوسف علیہ السلام مصر میں صرف ایک مرتبہ نہیں آئے۔ بقول چن بسویشور ان سے قبل ستائیس دفعہ وہ ہندوستان کی قوم لنگایت میں تشریف لاچکے ہیں۔ اب اٹھائیسویں مرتبہ ایک ہندو چن بسویشور کے روپ میں آئے۔ نعوذ باﷲ من شر ذالک! خدا کا پیغمبر اور ہندو کے روپ میں۔ یہ منہ اور مسور کی دال۔ یاد رہے یہ دعاوی کی پہلی سیڑھی ہے۔ آگے چل کر خود حضرت یوسف علیہ السلام پر اپنی فوقیت جتلاتے ہیں۔ خاموشی اور انگشت بدنداں رہ جانے کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں۔ بات سمجھ میں آئے تو کوئی عرض بھی کرے یہاں پر تو ؎
رنج آسماں میں ہے نہ راحت زمیں میں ہے
اپنے ہی حسن کا جوش ہے سب کچھ ہمیں میں ہے
اپنے قارئین دوستوں کو بس اتنا بتا دینا ضروری سمجھتا ہوں اور اس سے بڑھ کر یوسف