حقیقت یہ ہے کہ صدیق دیندار کی جماعت ہو یا قادیانی یا لاہوری سب ایک ہی درخت کے برگ وبار ہیں۔ صدیق، دیندار اور اس کی کتابوں سے جہاں قادیانیت کو تقویت پہنچتی تھی۔ وہاں انہی کے ذریعہ لاہوریت کا پرچار بھی رہا۔ چنانچہ محمد علی لاہوری کے بارے میں لکھتا ہے: ’’حضرت مولانا محمد علی امیر جماعت احمدیہ نے ایک خط میں مجھے اطلاع دی ہے کہ آپ سے ہماری جماعت کا ہر فرد خوش ہے۔‘‘ (حوالہ بالا)
ایک ایسا ہی خط قادیان سے آیا ہے۔ اسے بھی ذیل میں درج کرتے ہیں:
مکرمی السلام علیکم ورحمتہ اﷲ وبرکاتہ‘
عرض یہ ہے کہ مجلس مشارت کے بعد آئندہ سال کے پروگرام میں دکن کی طرف وفد بھیجنے کی کوشش کی جائے گی… بہرحال آپ کام کرتے رہئے۔ اﷲ تعالیٰ کے وعدے اپنے وقت پر پورے ہو جائیں گے۔ مزید برآں یہ عرض ہے کہ بوجہ مالی تنگی اس علاقہ کی طرف توجہ نہ ہوسکی… کام کی رپورٹ براہ کرم بھیج دیا کریں اور مشکلات اور نتائج سے آگاہ کرتے رہیں۔
والتسلیم! دستخط عبدالرحیم نیر نائب ناظر دعوۃ وتبلیغ قادیان
(منقول از کتاب خادم خاتم النبیین ص۷۸)
جس کتاب سے یہ حوالے دئیے جارہے ہیں وہ خود بانی انجمن صدیق چن بسویشور کی تصنیف ہے۔ ان اقتباسات بالخصوص مذکور خط سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ دیندار انجمن باقاعدہ ایک شاخ کی حیثیت سے اپنے مرکز قادیان میں کام کی رپورٹ اور نتائج بھجوایا کرتی تھی۔ اس لئے جماعت کے بعض افراد کا یہ کہنا کہ ہمارا قادیانیوں سے نہ نظریاتی کچھ تعلق ہے اور نہ ہی کسی اور قسم کا، بدیہی البطلان ہے۔
دیندار انجمن والوں کا امتحان
عوام کی دھوکہ دہی کے لئے دیندار انجمن کے مبلغین یہ کہا کرتے ہیں کہ ہمارا قادیانیوں اور ان کے عقائد سے کوئی تعلق نہیں ہے اور ہماری انجمن کے بانی چن بسویشور کے وہ عقائد نہ تھے جو مرزاغلام احمد قادیانی کے تھے اور یہ کہ وہ نبوت کے مدعی نہ تھے۔ وغیرہ!
یہ سب فریب اور ملمع سازی ہے۔ جہاں تک ان کے مرزائیت کی دونوں جماعتوں قادیانی اور لاہوری سے تعلقات کا معاملہ ہے۔ اس سے متعلق ہم پیچھے خود بانی جماعت کی کتابوں سے ثابت کر چکے ہیں کہ ان کی جماعت قادیانی جماعت کی ایک شاخ کی حیثیت رکھتی ہے۔