پھر وہ ایسا نبی کون ہے۔ اس کی خود تشریح فرماتے ہیں: ’’یہ فقیر فنافی الرسول اپنے اندر سے حضور منبع انوار کی قدسی طاقت کو ظاہر کر رہا ہے۔ جس کی وجہ سے میرے سامنے نہیں بلکہ حضور منبع انوار کے سامنے کل انبیاء زانوئے ادب طے کئے بیٹھے ہیں۔‘‘ (مہر نبوت ص۶۲)
پیچھے کئی عبارتوں میں یہ دکھایا جاچکا ہے کہ انہوں نے ہندو، سادھوؤں کو اولیاء اﷲ کہا ہے۔ ہمیں تو اس پر تعجب ہوتا تھا کہ ہندوؤں کو اولیاء اﷲ کیسے کہا۔ مگر جو خود کو ہندوؤں کا اوتار کہے ظاہر ہے وہ ہندوؤں کو اولیاء اﷲ ہی کہے گا۔ ایسی تحریریں دیکھ کر بے ساختہ ان کی عقل پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے۔ مسلمانوں میں دعوت وتبلیغ کر رہے ہیں اور اپنے کو ہندوؤں کا اوتار ثابت کر رہے ہیں۔ مگر سوائے اس کے ہم کیا کہہ سکتے ہیں کہ ؎
عجوبہ فقط آسماں ہی نہیںیہاں پر عجائب نظارے بہت
فلک پر ہی دمدار تارا نہیں
زمیں پر بھی دمدار تارے بہت
نہیں کوئی مسلم ہے نبیوں سے کچھ کم
دل پر انتہائی جبر کر کے لکھ رہا ہوں۔ ورنہ نہ قلم ایسی عبارتیں نقل کرنے کو تیار ہے۔ نہ ضمیر اس کی اجازت دیتا ہے کہ ایسی بکواس کو نقل کیاجائے۔ انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کی شان میں ایسی توہین آمیز عبارتیں دیکھ کر جذبات قابو سے باہر ہوجاتے ہیں۔ جگر قاش قاش ہوا جاتا ہے۔ خدا کی قسم مسلمانوں کو ان کے مکائد سے بچانے کی خاطر یہ عبارتیں ان کے سامنے رکھ رہا ہوں۔ ورنہ ان خرافات کا نقل کرنا تو درکنار میں ان کو دیکھنا بھی گناہ کبیرہ سمجھتا ہوں۔
چن بسویشور نے اپنے ساتھ اپنے مریدین کی بھی آخرت تباہ کر ڈالی۔ ان کو سبز باغ دکھا کر ان کا ضمیر موہ لیا۔ یہ کیسے ممکن تھا کہ پیر صاحب تو محمد ثانی بن بیٹھیں اور مرید بیٹھے منہ تکتے رہیں اس لئے اپنے مریدین کو انبیاء کا معزز لقب دے کر انہیں الو بنا دیا۔ قارئین حضرات کو یاد ہوگا کہ غلام احمد قادیانی نے اپنے چیلوں کو صحابی کا لقب دیا تھا۔ لیکن یہاں تو ایں خانہ ہمہ آفتاب است والا معاملہ ہے۔ ارشاد ہے ؎
بروز محمد فنافی الرسولم
ہمہ انبیاء را رفیقہامی بینم