جلسہ کا اہتمام
غازی اعظم اتاترک کی تقریر کے بعد حافظ نور اﷲ صاحب آفندی نے قوم کی طرف سے غازی اعظم کا شکریہ ادا کیا اور قادیانیت اور دوسرے فتنوں کے استیصال کے لئے ’’انجمن مدافعہ حقوق مقدسیہ اسلامی‘‘ کے قیام کا اعلان کیاگیا۔ اس انجمن کی تشکیل کے لئے یکم؍فروری ۱۹۳۵ء بروز جمعہ مسجد سلطان محمد فاتح میں مسلمانوں کا اجتماع ہوگا۔‘‘ (اخبار احسان مورخہ ۲۰؍جنوری ۱۹۳۵ئ)
پاکستان میں مرزائیت
یوں تو عہد غلامی کا کوئی سال ایسا نہیں گذرا جب اجنبی حکومت کے خلاف کسی نہ کسی بہانے کوئی نہ کوئی تحریک ملک میں شروع نہ رہی ہو۔ لیکن ۱۹۳۱ء کا سال بڑا عجیب سال تھا۔ اگر ایک طرف کانگریس کی تحریک سول نافرمانی شروع تھی تو دوسری طرف مجلس احرار، کشمیر کے بتیس لاکھ انسانوں کے لئے مہاراجہ ہری سنگھ سے دست وگریبان تھی۔ ہاں البتہ انگریز بظاہر اس زمانہ میں بہت حد تک اپنے اندرونی جھگڑوں سے فارغ تھا۔ لیکن آنے والی دوسری جنگ عظیم کے پیش نظر اشتراکیت کے بڑھتے ہوئے سیلاب کے خوف سے کشمیر اور خاص گلگت پر اپنا اقتدار چاہتا تھا۔ جیسے ہی کشمیری عوام نے ریاست کی شخصی حکومت سے گلوخلاصی کا عزم کیا فوراً انگریزی حکمرانوں نے اپنے پر پرزے سنبھالے اور دیکھتے ہی دیکھتے کشمیر کمیٹی کی تشکیل عمل میں آگئی اور مرزابشیرالدین قادیانی اس کا صدر بن گیا۔
یہ وقت تھا جب کشمیری مسلمانوں کے علاوہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے ایمان ضائع ہوجانے کا احتمال تھا۔ کیونکہ مرزائی انگریزی نظام کے سہارے عالم اسلام میں پروپیگنڈا کر سکتا تھا کہ کشمیر کے بتیس لاکھ انسانوں نے مجھے اپنا امیر منتخب کرلیا ہے اور پھر فرنگی کا دامن اس واقعہ کو ہوا دینے کے لئے موجود تھا۔ لہٰذا خوف پیدا ہوگیا تھا کہ ہندوستان سے باہر کے مسلمان اس واقعات سے متأثر ہوکر متاع ایمان نہ کھو بیٹھیں۔ ان حالات کے پیش نظر مجلس احرار نے فوری اقدام کیا۔ جس سے کفر کے تمام منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ مسلمان رؤسا میں سے جو اس کمیٹی کے ذمہ دار عہدیدار تھے۔ ان واقعات سے آشنائی کے بعد سب سے پہلے مفکر ایشیاء ڈاکٹر سر محمد اقبال نے حسب ذیل بیان دیا۔
’’بدقسمتی سے کمیٹی میں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنے مذہبی فرقہ کے امیر کے سوا کسی دوسرے کا اتباع کرنا سرے سے گناہ سمجھتے ہیں۔ چنانچہ احمدی وکلاء میں سے ایک صاحب نے جو