ہے تو پھر اس کے لئے تیاری فرمائیں۔ ہم صرف چارگواہ ہی نہیں بلکہ بہت سی شہادتیں لڑکیوں اور لڑکوں کے شہادت کی جناب والا کی شہادت پیش کریں گے۔ اگر ہم ثبوت پیش نہ کر سکیں تو آپ کی بریت ہو جائے گی اور ہم ہمیشہ کے لئے ذلیل ہونے کے علاوہ ہر قسم کی سزا بھگتنے کے لئے تیار ہیں۔‘‘ (حکیم عبدالعزیز سیکرٹری انجمن انصار احمدیہ قادیان کا ٹریکٹ شائع شدہ)
ان حالات میں انجمن انصار احمدیہ قادیان کے عہدے داران کی نگرانی پر بائیکاٹ ومقاطعہ جاسوسی کا عمل سخت کر دیا گیا۔ مجلس خدام الاحمدیہ قادیانی (جس کا صدر خلیفہ کا بیٹا ناصر احمد آنجہانی تھا) اور اس کے ممبر وحواری کوشش سے اس مخالفت کو ختم کرواتا تھا اور اس کا خاتمہ کرنا تھا۔ جس کے طبقے بنائے گئے۔ جس میں عبدالعزیز عرف جیج بھانبڑی انچارچ کار خاص، محمد حیات سرمہ فروش، شیرو لوہار، لال دین موچی، عزیز قلعی گر (جس نے بعد میں فخرالدین کو قتل کیا تھا) نذیر مولوی فاضل، نذر محمد مولوی، ظفر محمد مولوی وغیرہ تھے۔ شیخ عبدالرحمن مصری کی کوٹھی پر اس کی درخواست پر مولوی عنایت اﷲ چشتی امیر مجلس احرار قادیان انچارج نے ۱۲احرار والنٹیرز کا رات کو پہرہ لگوادیا اور ٹارچیں اور کلہاڑی پہرہ داروں کے پاس تھیں۔ تاکہ رات کو حملہ نہ ہوسکے۔ جب بھانبڑی موقعہ پر رات کے ۱۲بجے گیا۔ تو پہرداروں کو دیکھ کر واپس لوٹ گیا اور شیخ مصری کا خاندان قتل سے بچ گیا۔ صبح کو پولیس کی امداد سے نقل مکانی کر لی۔
فخرالدین ملتانی کا قتل
فخرالدین ملتانی قادیانی کی دکان چوک قادیان مرزائیوں کے خلیفہ مرزامحمود کے محل کو جانے والے راستہ اور قادیانی عبادت گاہ مبارک قادیان کے عین نیچے تھی۔ اس دکان کا نام احمدیہ کتاب گھر قادیان تھا۔ جو مرزائیوں کی تبلیغی کتب شائع کرتا تھا۔ اس کے تعلقات شیخ عبدالرحمن بی اے ہیڈ ماسٹر احمدیہ سکول جو اس کی مکان کے قریب رہتا تھا، سے تھے۔ شیخ عبدالرحمن قادیانی مصر میں مبلغ بھیجا گیا تھا۔ جو واپسی کے بعد (منسٹر) ناظر تعلیم وتربیت سلسلہ قادیان تھا۔ عبدالعزیز بھی سلسلہ احمدیہ کا مبلغ تھا۔ ان تینوں کے باہمی مراسم تھے۔ بعض اخلاقی معاملات میں شیخ عبدالرحمن مصری (جو خلیفہ محمود کے سفر لندن، فرانس، اٹلی وغیرہ وغیرہ یورپین ممالک کے وقت قائم مقام خلیفہ قادیان مقرر کیا جاتا تھا) خلیفہ محمود اور شیخ عبدالرحمن مصری کے اختلافات ہوگئے۔ شیخ مصری نے بعض اندرونی اخلاقی کردار کے خطوط کی وضاحت چاہی تھی اور خلیفہ محمود کو مختلف اوقات میں