اعلیٰ سلسلہ احمدیہ عالیہ قادیان سے مطالبہ وتقاضا کیا (عرف فتوسیال) اور اس کی کوٹھی پر رقم لینے گیا۔ جو موضع بھینی کے نزدیک تھی اور ریلوے اسٹیشن قادیان سے نصف میل پر تھا۔ فتح محمد سیال ناظر اعلیٰ نے کہا کہ میری کوٹھی پر نہ آیا کرو۔ بلکہ دفتر میں آؤ۔ محمد امین نے کہا کہ دفتر میں عوام آتے جاتے ہیں۔ یہ راز فاش ہوگیا تو سلسلہ کی بدنامی ہوگی اور سلسلہ قاتلوں کی حوصلہ افزائی والا گنا جائے گا۔ لہٰذا حسب کتاب تنہائی میں ٹھیک ہوگا۔
فتح محمد نے جواب دیا کہ رقم میری ذاتی نہیں ہے۔ بلکہ دفتر محاسب سے چیک دے کر نکلوانی ہوتی ہے۔ کیونکہ سلسلہ کا کاز ہے۔ محمد امین خان مبلغ نے کہا کہ میں دفتر میں نہیں جاؤں گا۔ کوٹھی پر رقم لوں گا۔ آخر فتح محمد نے جواب دے دیا کہ رقم کوٹھی پر نہیں دوں گا۔
دیگر بات یہ ہے کہ جس کو قتل کروانا تھا۔ یعنی عبدالکریم مباہلہ کو وہ تو بچ گیا اور حاجی محمد حسین اس کے ضامن کو قتل کیاگیا۔ مقصد تو پورا نہ ہوا۔ محمد امین خان ایک مبلغ تھا۔ دوسری دفعہ فتح محمد سیال کی کوٹھی پر گیا۔ رقم کا تقاضا کیا۔ باتوں باتوں میں تلخ کلامی ہوئی اور فتح محمد سیال نے اپنے گھریلو افراد اور ملازمین کو بلایا۔ ان کے ذریعے اس کو کوٹھی سے نکالنا چاہا۔ مگر محمد امین نے کہا وہ تو رقم لے کر ہی جائے گا۔ اس نے نوکروں کو اشارہ کیا وہ اس پر حملہ آور ہوگئے اور فتح محمد سیال نے گرے ہوئے پر کلہاڑی سے وار کیا۔ اس کے سر پر لگی۔ خون بہنے لگا۔ ایک اور ضربات لگائیں اور محمد امین قادیانی نے پانی مانگا۔ پانی بھلا کون دیتا اور وہ وہی ختم ہوگیا۔
فتح محمد سیال ناظر اعلیٰ نے اس لاش کو اٹھوا کر شارع عام راستہ پر گروادیا۔ جو راستہ موضع بھینی کے قادیان کو جاتا تھا۔ فتح محمد سیال کی کوٹھی کے قریب ایک سکھ پر تاپ سنگھ عرف پرتابو کا رقبہ اور کنواں تھا۔ جب پرتاب سنگھ کنواں سے گھر آنے لگا تو مردہ لاش پڑی تھی۔ اس خطرہ کے پیش نظر کہ شاید پولیس تفتیش کے وقت ان پر ہی نزلہ نہ گرادے۔
انہوں نے پولیس کو رپورٹ کی، پولیس موقعہ پر پہنچی۔ بے گوروکفن لاش پڑی تھی۔ محمد علی نمبردار موضع بھینی کو بلوایا گیا اور مخلوق بھی اس عبرتناک واقعہ کو دیکھنے گئی تھی۔ قاتل کون ہے اور موقع پر کس نے دیکھا۔ یہ قانونی سوال زیر تفتیش تھے۔
محمد علی نمبردار موضع بھینی نے لاش کو شناخت تو کر لیا۔ یہ محمد امین مبلغ بخارہ۱ کی نعش ہے۔ مگر قتل کیسے ہوا۔ بنائے قتل ارادہ وجوہات قتل (Motive) کیا تھا۔ محمد علی نے تھانہ دار کو