قادیان میں لاش کا جلوس قاضی محمد علی نوشہروی کی لاش قادیان میں لائی گئی۔ اس کا جلوس نکالا گیا اور اس کو شہید احمدیت کا خطاب دیاگیا۔ خلیفہ محمود نے اس کی لاش کو کندھا دیا اور اس کو بہشتی مقبرہ (نام نہاد) میں بڑے کروفر سے دفن کیا۔ بڑے جفادری مرزائی جنازہ میں شامل ہوئے۔ احمدیہ کور اور خدام الاحمدیہ جس کا انچارج مرزاناصر احمد آنجہانی خلیفہ ثالث تھا۔ قدم قدم پر شہید احمدیت زندہ باد کے نعرے لگائے اور اس کی خدمات کو سراہا گیا۔
مشاعرہ شہید احمدیت
رات کو عام مہمان خانہ میں مشاعرہ ہوا۔ قاضی اکمل ایڈیٹر الفضل قادیان، رحمت اﷲ شاکر اسسٹنٹ ایڈیٹر الفضل عرف الدجل قادیان، منظور احمد منظور بھیروی، حافظ سلیم اٹاوی، ابراہیم عاجز ماشکی، روشن دین، تنویر سیالکوٹی وغیرہ۔ شاعران احمدیت نے محمد علی قاتل کی شان میں نظمیں سنائیں۔ بعد میں ان نظموں کی کتاب ’’گلدستہ احمدیت‘‘ کے نام پر شائع کی گئی جو عام تقسیم کی گئی۔
صرف ایک شعر ملاحظہ ہو:
پیچھے آکر سب سے آگے بڑھ گیا
مثل عیسیٰ آسمان پہ چڑھ گیا
خلیفہ محمود بہت کایاں شخص تھا۔ جب اس کی نظر کتاب کے اس شعر پر پڑی تو اس نے فوراً کتاب بحق سلسلہ ضبط کر لی۔ کیونکہ اس سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان پر جانا ثابت ہوتا تھا۔ جو مرزائیت کی ساری عمارت پر ایٹم بم تھا۔
قدرت کا انتقام: محمد امین کا قتل
اﷲتعالیٰ کی پکڑ بڑی سخت ہوتی ہے۔ اس کا انتقام دیر گیر وسخت گیر ہوتا ہے۔ حاجی محمد حسین بٹالوی کا بے گناہ قتل رنگ لایا۔ محمد امین مجاہد بخارا جس نے قاضی محمد علی قاتل مہیا کیا تھا۔ اس کی کچھ رقم محمد امین کو فتح محمد سیال ناظراعلیٰ سلسلہ احمدیہ قادیان نے عبدالکریم مباہلہ کو قتل کروانے کے لئے پیشگی دی تھی اور کچھ رقم بقایا تھی۔ محمد امین خان نے بقایا رقم کا فتح محمد سیال ایم۔اے ناظر