کافی رقم پیشگی دی گئی اور عبدالکریم امرتسر سے گورداسپور روانگی پر لاری بس میں قتل کرنے کی سکیم بنائی۔ امرتسر لاری اڈا پر خدام الاحمدیہ کے مخصوص والنٹیرز مقرر کئے گئے۔ سازش یہ تھی کہ عبدالکریم جب لاری بٹالہ پہنچے تو والنٹیرز اڈا پر ہاتھ نکال کر قاضی محمد علی نوشہروی کو اس لاری میں سوار ہونے کا اشارہ دے دے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ جب لاری بٹالہ اڈا پر آکر ٹھہری۔ قاضی محمد علی نوشہری اشارہ پاتے ہی اس لاری میں سوار ہوگیا۔
حاجی محمد حسین ضامن کا قتل
مولانا عبدالکریم مباہلہ کے ہمراہ حاجی محمد حسین بٹالوی مالک زمیندار فونڈری بٹالہ اس کا ضامن بھی سوار تھا۔ والنٹیرز بٹالہ اڈا پر اتر گیا۔ مگر وہ قاضی محمد علی نوشہروی (مرزائی قاتل) کومولانا عبدالکریم مباہلہ کی نشاندہی کر گیا۔ لاری چلنے لگی اور بٹالہ سے چند میل دور لاری کے اندر ہی خنجر لے کر اٹھا اور اس نے مولانا عبدالکریم پروار کرنا ہی تھا۔ مگر وار خطا گیا اور خنجر حاجی محمد حسین کے لگ گیا۔ یہ نشاندہی کی وجہ سے کیاگیا۔ قاتل جلدی میں مولانا محمد حسین ضامن اور مولانا عبدالکریم میں امتیاز نہ کر سکا۔ کیونکہ قاتل کا خون اتر کر اس کی عقل پر چھا جاتا ہے۔
بہرحال لاری رک گئی اور مسافروں نے ہمت کر کے قاضی محمد علی قاتل کو گرفتار کر لیا۔ اس پر زیر دفعہ ۳۰۲(قتل) مقدمہ قائم کر دیا گیا۔ اس مقدمہ کی تفصیل کا ذکر فیصلہ سرکار بنام امیرشریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری بجرم 153-A میں مسٹر جی۔ڈی کھوسہ سیشن جج گورداسپور میں آتا ہے۔ یہ فیصلہ پڑھنے کے قابل ہے۔
قاتل کے امددی قادیانی وکلاء
قاضی محمد علی نوشہروی قاتل کو بچانے کے لئے پریوی کونسل لندن تک کوشش کی گئی۔ احمدیہ ڈیفنس کونسل وکلاء کی کونسل تھی۔ جو سرظفراﷲ خان بیرسٹر آنجہانی عرف ظفر وچوہدری اس کا بھائی چوہدری اسد اﷲ آنجہانی (جو کسی وقت اسسٹنٹ ایڈووکیٹ پنجاب بھی رہا تھا) مرزاعبدالحق ایڈووکیٹ گورداسپور، محمد احمد وکیل کپورتھلہ اور مولوی فضل الدین قادیان، شیخ ارشد علی ایڈووکیٹ بٹالہ وغیرہ مرزائی وکلاء پر مشتمل تھی۔ قاتل کو پھانسی کی سزا کا حکم سنایا گیا۔ پنجاب ہائیکورٹ نے اپیل خارج کر دی گئی اور پریوی کونسل لندن نے بھی اپیل خارج کر دی۔