مرزائی کی دین ودنیا تباہ کر دی جاتی۔ مثلاً ابتداء محفوظ الحق علمی مرزائی ایڈیٹر اخبار الفضل قادیان، نائب ایڈیٹر مہر محمد شہاب، ماسٹر اﷲ دتہ مبلغ سلسلہ عالیہ احمدیہ تائب ہونے پر ان کا اخراج کر دیا گیا۔ یعنی وہ قایان میں نہیں رہ سکتے۔ پھر بائیکاٹ اور مقاطعہ ہوا۔ یعنی اقتصادی بائیکاٹ، کوئی مرزائی نہ ان سے بول چال کرے، نہ سودا دیوے۔ نہ کوئی ان سے کوئی کام کروائے۔ نہ سودا لیوے۔ قطع کلامی، اس کی بیوی بچوں تک کو بھی اس سے کلام بول چال کرنے کی اجازت نہ تھی۔ ان کو مرتد کے لفظ سے خطاب کیا جاتا۔ عام مرزائی عبادت گاہوں کے علاوہ احمدیہ بازار میں بورڈوں پر چاک سے لکھ دیا جاتا اور مرزائی اخباروں میں اس سزا کا اعلان کیا جاتا۔
مستری عبدالکریم، مستری فضل کریم، محمد زاہد زیر عتاب ہوگئے
تقریباً ۱۹۳۰ء میں مستری عبدالکریم، مستری فضل کریم، محمد زاہد جب مرزائیت سے تائب ہوئے ان کا مکان بہشتی مقبرہ کے پل کے قریب تھا۔ ان کا راتوں رات مکان جلادیا گیا۔ خلیفہ محمود قادیانی کے حکم کی اطلاع ان کو ایک برقعہ پوش نے دے دی تھی۔ جو خلیفہ کے اس حکم کو ظلم عظیم سمجھتی تھی تو یہ صاحبان عشاء سے پہلے ہی مکان چھوڑ کر نکل آئے اور رات سکھوں کے بورڈنگ کے ایک کمرہ میں پناہ لی۔
علی الصبح فجر سے پہلے برقعہ پہن کر سکھوں کی موٹر میں بیٹھ کر بٹالہ اور پھر بٹالہ سے امرتسر پہنچ گئے اور مجلس احرار اسلام امرتسر کی حفاظت میں امرتسر ہال بازار میں دکان لی اور مکان کرایہ پر لے کر رہائش اختیار کی۔ قادیان میں ان کا مکان رات کے تقریباً بارہ بجے جلا کر راکھ کر دیا۔ صبح اخبار ’’الفضل‘‘ قادیان عرف الدجال نے خبر شائع کی کہ مستری مرتدین نے خود اپنے مکان کو آگ لگائی ہے۔ امرتسر سے عبدالکریم نے اخبار مباہلہ شائع کیا۔ جس میں اپنی بے بسی اور بے کسی کی روداد شائع کی۔
قادیان میں شیخ یعقوب علی مدیر الحکم کی صدارت میں نئے ڈاکخانہ کی مجوزہ جگہ سبزی منڈی پر ان کے خلاف اشتعال انگیز تقریریں ہوئیں اور مرزائیوں کو ان کے خلاف جوش دلایاگیا۔ انگریزی حکومت نے مستری عبدالکریم عرف عبدالکریم مباہلہ کے خلاف زیردفعہ 153-A مقدمہ کی سماعت ہونے لگی۔ مسلمانوں کی طرف سے شیخ شریف حسین ایڈووکیٹ گورداسپور حال ساہیوال مرحوم نے مقدمہ کی پیروی کی۔ مرزائیوں کی طرف سے مرزائی وکیل مرزاعبدالحق ایڈووکیٹ تھا۔ جو اب سنا گیا ہے کہ سرگودھا میں پریکٹس کرتا ہے۔