احمدیہ قادیان کی کور الگ تھی۔ جس کا انچارج مرزاناصر اور محمد حیات سرمہ فروش جو موتی سرمہ کے نام پر سرمہ فروخت کرتا تھا۔ جس کی دکان قادیانی عبادت گاہ اقصیٰ کے ملحقہ تھی۔ مرزامحمود قادیانی کا باڈی گارڈ دستہ الگ تھا۔ جس کا نام محکمہ کار خاص تھا۔ جس کا انچارج کیپٹن مرزاشریف احمد تھا۔ جو مرزامحمود خلیفہ قادیان کا برادر خورد تھا اور محکمہ امور عامہ کا ناظر (منسٹر) مرزامحمودخلیفہ قادیان کا سالہ ولی اﷲ شاہ تھا۔ جس کو سالار جنگ کہتے تھے اور امور خارجہ کا ناظر مفتی ماسٹر محمد صادق تھا۔
ناضر ضیافت
میر محمد اسحاق جو خلیفہ قادیان کا ماموں تھا۔ اس کے ماتحت دو لنگر خانے تھے۔ لنگر خانہ اعلیٰ ولنگر خانہ عام، اعلیٰ لنگر خانہ، بڑے بڑے سرکاری، افسران کے لئے تھا۔ آفیسران کی آئے دن کی دعوتیں ان سے میل ملاقات رکھنا اس لنگر خانہ کا نام مہمان خانہ یعنی گیسٹ ہاؤس تھا اور عام مہمان خانہ، عام مرزائیوں کے گھریلو آمدہ مہمانوں کے لئے تھا۔
اعلیٰ مہمان خانہ میں مرغ پلاؤ، تیتر، بٹیر، ہرن کا گوشت اور اعلیٰ ماکولات ومشروبات ہوتے تھے اور عام لنگر خانہ میں بھینس، بیل گائے کا گوشت ان کو شلجم (شلغم) ملا کر پکایا جاتا اور رات کو چنے اور ماش کی دال یا سبزی، کلفہ، پیٹھا، کدو، بینگن اور گھیا توری پکتی تھی۔
جمعہ کا آٹا
قادیانی بہشتی مقبرہ کے قریب، یتیم مرزائیوں کا محلہ دارالضعفاء یعنی یتیم لڑکے اور بوڑھے ضعیف لوگ بسائے جاتے تھے۔ یہ مرزائی یتیم لڑکے بے بس تھے۔ ان کو دیہات میں ہر جمعرات کے روز بھیجا جاتا۔ وہ لنگر خانہ عام اور اپنے گزارہ کے لئے جاکر آواز لگاتے۔ جمعہ کا آٹا، جمعہ کا آٹا اور علاقہ کے مرزائیوں، یا مرزائی نواز مسلمانوں سے آٹا مانگ کر سرپہ لاتے۔ اس طرح یتیم لڑکے اپنا پیٹ پالتے۔
تائبین کا حشر (بائیکاٹ اٹھا کر اخراج، مقاطعہ) اوّل تو کوئی مرزائی قادیان میں رہتے ہوئے مرزائی جماعت سے الگ ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ کیونکہ اس کو بائیکاٹ اور مقاطعہ اور اخراج کا اور حملہ کا شدید خطرہ ہوتا۔ یہ سزائیں خلیفہ قادیان کے حکم پر دی جاتیں۔ ان سزاؤں سے توبہ کرنے والے