البشیر، تحریک جدید، الفضل، ہفت روزہ لاہور وغیرہ وغیرہ اور ان کو انگریزی حمایت اور مسلمانوں میں سر پھٹول کروانے کی کھلی آزادی تھی۔ مسلمانوں کو قادیان میں اخبار نکالنے کی اجازت تھی۔ نہ اپنے اسلامی عقائد کی تبلیغ کے لئے جلسہ کرنے کی اجازت تھی۔
پہلا اسلامی جلسہ
۱۹۲۶ء میں قادیان کے مسلمانوں کی انجمن اسلامیہ نے جلسہ کرنا چاہا۔ پہلے تو انگریز ڈپٹی کمشنر گورداسپور نے بہت جدوجہد سے مسلمانوں کو جلسہ کرنے کی اجازت دے دی۔ مگر بعد میں قادیانیوں کے دباؤ کے تحت حکم جاری کر دیا۔ آئندہ مسلمانوں کو جلسہ کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اگر علاقہ قادیان میں مسلمانوں نے جلسہ کیا تو قادیان سے خلیفہ محمود نے اپنی لٹھ بند کور اور خدام الاحمدیہ کے والنٹیرز بھیج دئیے کہ جلسہ میں شور وشر کریں اور جلسہ نہ ہونے دیں کہ فساد کا خطرہ پیدا کریں اور دہشت گردی پیدا کریں۔ لیکن سکھ تھانے دار، ہندو مجسٹریٹ گورداسپور لالہ خوشی رام نے جلسہ کے پنڈال کو حراست میں لے لیا اور مرزائیوں کی سازش ناکام رہی۔دوسرا اسلامی جلسہ ۱۹۲۹ء اور مرزائیوں کا حملہ
انجمن اسلامیہ قادیان نے دوسرا اسلامی جلسہ ۱۹۲۹ء میں کیا۔ جس میں مولانا ثناء اﷲ امرتسری ودیگر علمائے کرام امرتسر، بٹالہ اور لاہور نے متفقہ طور پر اسلام کی تبلیغ کی۔ علاقہ میں مرزائیوں کی تبلیغ کا اثر خاک میں مل گیا۔ مولانا ثناء اﷲؒ نے دوپہر کو مرزاغلام احمد قادیانی کی دعوت مباہلہ کے واقعات سنائے اور وہ عصر کے وقت واپس چلے گئے۔ رات کو قادیانی کور اور خدام الاحمدیہ نے مرزاناصر (جو اب واصل جہنم ہوچکے ہیں) نے جلسہ کے سائبانوں کی قناتیں کاٹ دیں اور گیس توڑ ڈالے۔ (اس زمانہ میں بجلی نہیں تھی) اور جلسہ کے مہمانوں، میر ابراہیم سیالکوٹی اور دیگر علماء پر حملہ کر دیا۔ علماء کرام اور عوام زخمی ہوئے۔ پولیس نے قادیانی غیرمشہور والنٹیر کا چالان کیا اور موٹے موٹے حملہ آوروں کو چھوڑ دیا۔ چند ایک مرزائیوں کو بلوہ کرنے پر معمولی سزائیں ہوئیں۔
قادیانی تنظیم
مسلمانوں کے جلسہ کو روکنے اور درہم برہم کرنے کے لئے مقامی جنرل پریذیڈنٹ