حالات اس قدر نازک صورت اختیار کر گئے کہ عاشقان احمد کو ہجرت پر مجبور کر دیا گیا… اور اس قدر انہیں صدمہ ہوا کہ ہجرت کے بعد سلسلہ کے بزرگ اور حضرت مسیح موعود کے بعض صحابہ اس دارفانی سے کوچ کر کے اپنی حقیقی مولا سے جا ملے۔ انا لللّٰہ وانا الیہ راجعون… اے کاش انڈین یونین میری بات کو سمجھے کہ احمدیوں نے قادیان اور قادیان والوں کی خاطر ساری دنیا کو چھوڑا ہے۔ اب وہ ان کو چھوڑ کر کیسے زندہ رہ سکتے ہیں۔ ’’اللہم صل علیٰ محمد وعلیٰ آل محمد وعلیٰ عبدالمسیح الموعود وبارک وسلم انک حمید مجید‘‘
(الفضل قادیان ج۲ نمبر۱۱۸ ص۲، مورخہ ۲۶؍مئی ۱۹۴۸ئ)
فرقہ احمدیہ کے ان پوشیدہ عزائم کی تکمیل کے لئے خاص خطہ یا علاقہ ہو تو تبھی یہ لوگ کوئی خفیہ سازش کر سکتے ہیں۔ ورنہ ان کی ہر حرکت کا عوام الناس اور حکومت وقت کو پتہ چل سکتا ہے۔ اسی آرزو کا وہ اظہار کر بھی چکے ہیں کہ ان کے لئے علاقہ ہونا چاہئے۔ شاید انہیں امور کی تکمیل کے لئے ربوہ، ضلع جھنگ میں بنایا گیا۔ جس کی حقیقت زمیندار کے علاوہ اخبار نوائے وقت نے بھی کھولی تھی۔ شاید ان کو یہ خیال ہو کہ حکومت پاکستان ان کے ماضی کے مشکوک رویہ سے غافل ہو اور سرفرانسس موڈی گورنر پنجاب جاتی دفعہ اپنے پودے کی پرورش کر کے پاکستان میں بلجیم کا انٹورپ (ربوہ) بناگیا ہے۔
ربوہ
’’احمدیوں کا نیا مرکز پاکستان کے ضلع جھنگ میں چنیوٹ سے پانچ میل کے فاصلہ پر دریائے چناب کے پاس ربوہ کے نام سے آباد کیا ہے۔ ربوہ کے معنی بلند مقام یا پہاڑی مقام کے ہیں۔ یہ نام اس نیک فال کے طور پر رکھا گیا ہے کہ اﷲتعالیٰ اس مقام کو حق وصداقت اور روحانیت کی بلندیوں تک پہنچنے کا ذریعہ بناوے۔ آبادی کے لئے سردست دس سو چونتیس (۱۰۳۴) ایکڑ زمین قیمتاً خریدی گئی ہے۔ چنیوٹ سے جانے والی لائن اس زمین سے گذرتی ہے۔ یہ جگہ لائل پور سرگودھا کے عین وسط میں ہے۔ اس وقت ربوہ کی آبادی ایک ہزار نفوس تک پہنچ چکی ہے۔ صدر انجمن احمدیہ اور تحریک جدید کے دفاتر کے علاوہ حضرت امیرالمؤمنین کی رہائش گاہ، لنگر خانہ، مہمان خانہ اور نور ہسپتال کی عارضی عمارتیں تیار ہوچکی ہیں۔‘‘ (اخبار الرحمت مورخہ ۲۱؍نومبر ۱۹۴۹ئ)
غور کا مقام
پس اب مسلمانان پاکستان کے لئے غور کا مقام ہے کہ جس فرقہ کو عرب، حجاز، مصر،